حجاب اور مسلمان

Hijab

Hijab

تحریر: محمد عتیق الرحمن
ہمارے ہاں جتنی قیمتی چیز ہوتی ہے اسے اتنا ہی لوگوں کی نظروں سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کا وجود بھی اللہ رب العزت نے بہت محترم اور قیمتی بنایا ہے اور اسے لوگوں کی نظروں سے محفوظ رکھنے کیلئے حجاب کے احکامات نازل کئے ہیں کہ صدف کا موتی بھی خلوت میں جنم پاتا ہے اور اسی میں بند ہو کر پرورش پاتا ہے۔ حجاب محض ڈیڑھ گز کپڑے کے ٹکڑے کو سر پر لپیٹ لینے کا نام نہیں بلکہ ایک پورا اخلاقی نظام ہے جو ہماری پوری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔نا صرف معاشرے کو پاکیزگی عطا کرتا ہے بلکہ عورت کو توقیر بخشتا ہے۔اورعورت کو وہ مقام دیتا ہے جو آج کی جدید دنیا بھی دینے سے قاصر ہے ۔لفظ حجاب(عربی)اور لفظ پردہ(فارسی) زبان سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریباََ ہم معنی ہیں ان جیسے کئی اور الفاظ بھی مثلاََبرقع ،گھونگٹ، پردہ، آڑ،حیا، شرم ،نقاب اور حجاب لغت میں ملتے ہیں۔

خواتین کے لئے لفظ پردہ غیرمحرم مردوں سے اپنے جسم کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تا کہ وہ مردشیطانی اوہام سے محفوظ رہیں اور ان عورتوں کی عزت و عصمت محفوظ رہے۔حجاب ایک وسیع المعنٰی لفظ ہے اور اس کی ضِد کشف ہے۔لفظ حجاب قرآنِ کریم میں سات بار استعمال ہوا اور (سورۃ احزاب،59)کا مفہوم ہے کہ اے نبیﷺ!اپنی بیویوں ،صاحب زادی اور مسلمان عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادر کا ایک حصہ اپنے چہروں پر ڈالے رہیں۔یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے لئے اپنے سر اور چہرہ کو چادر میں چھپانا لازم ہے۔ آج کے جدید دور میں پردہ کی بہت سی اقسام مثلاََ برقع، اسکارف، موزے ،دستانے اور دیگر لباس پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں عورت کی سہولت مقصود ہے۔

اگست اور ستمبر پاکستانیوں کے لئے اک خاص اہمیت کے حامل مہینے ہیں اس کے ساتھ ساتھ 4ستمبر عالم اسلام کی خواتین کے لئے اہمیت رکھتا ہے ۔عالمی یوم حجاب 4ستمبر کو منایا جاتا ہے اس کاپس منظر کچھ یوں ہے کہ مغربی معاشرہ مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی دینی بیداری اور شعور کو دیکھ کرپہلے ہی خوفزدہ تھا اور یہ خوف 11 ستمبر کے بعد زیادہ ہو گیا۔ یہ انکا خوف ہی ہے کہ وہ جبراً مسلم خواتین کو پردہ کے استعمال سے دور رکھنا چاہتے ہیں اسی اثناء میں2 ستمبر 2003 میں فرانس میں ہیڈ سکارف پر پابندی کا قانون منظورکیا گیا جسکی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی لہذا لندن میں12جولائی کو علامہ یوسف القرضاوی کے زیر صدارت ،امتِ مسلمہ کے سرکردہ علماء اور تحاریکِ اسلامی کے سربراہان کو بلا کر ایک کانفرنس کا انقعاد کیا جس میں 4 ستمبر کو عالمی یومِ حجاب منانے کا اعلان کیاگیا۔

International Hijab Day

International Hijab Day

اسی طرح یومِ حجاب کو منانے میں ایک اور سانحہ محرک ہے کہ یکم جولائی 2009 کو مروہ شربینی کو جرمنی میں حجاب پہننے کے جرم میں بھری عدالت میں شہید کر دینے کاالمناک واقع پیش آیالیکن جرمن حکومت کی جانب ہے اس معاملے پر کوئی ایکشن نہ لیاگیا۔ جس سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید دھچکا لگا اوروہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک میں انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے۔ جس کے بعد تمام یورپی اور اسلامی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال 4 ستمبر کو انٹرنیشنل حجاب ڈے منایا جائیگا۔اس دن مسلم خواتین اس بات کا بھی اعادہ کرتی ہیں کہ حجاب اسلام کا عطا کردہ معیار، عزت و عصمت اور بنیادی حق ہے۔یہ کوئی پابندی یا جبر کی علامت نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے اور حجاب کا پسماندگی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہیبلکہ یہ فخر اور وقارکی علامت ہے۔ موجودہ دور میں عالمی استعماری قوتوں نے امت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعار کو ہدف بنایا ہوا ہے۔جس شدت سے تہذیبی یلغاراسلام پر حملہ آور ہے ،اسلام بھی اسی قوت کے ساتھ ابھر رہاہے ۔

9/11 سے پہلے داڑھی اور برقع ایک مذہبی علامت کے طور پر استعمال کرنے کا رحجان تھا لیکن جیسے ہی 9/11 کے بعد عالمی استعماری قوتوں کو اسلامک فوبیا ہوا اور انہوں نے اسلامی شعار کے ساتھ مذاق کرنا اپنا وطیرہ بنالیا اس کے ساتھ ہی اسلام کے ماننے والوں نے ان پر عمل کرنا شروع کردیا یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں مسلمان لڑکیوں کی اکثریت باحجاب اور لڑکوں میں داڑھی رکھنے کا رحجان بہ نسبت اپنے آباؤاجداد کے زیادہ نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ مسلمانوں کا دوسری تہذیبوں کے ساتھ مذہبی تصادم کا ہونا ہے۔مذکورہ بالا واقعات اگر نہ ہوتے تو شاید آج ہم میں سے اکثریت صرف ملاؤں کو داڑھی والا اور ان کی گھروالیوں کو حجاب میں دیکھتی ۔لیکن اب تقریباََپاکستان میں ہر گھر میں برقع لازمی ہوگا۔

ابھی حال ہی میں جی ۔سی یونیورسٹی لاہور میں ایک پاکستانی لڑکی کو صرف حجاب پہننے کی وجہ سے داخلہ نہیں مل سکا،غیر مسلم ممالک کی تو بات ہی کیا ؟ یہ ملک جو ہمارے بزرگوں نے اسلام کی تجربہ گاہ کے لئے بنایا تھا جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا ۔اس ملک میں حجاب کے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے تو غیر مسلم ممالک میں کیا صورت حال ہوگی؟ ۔مروہ شربینی جیسی باحجاب عورتیں اسلامی معاشرہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا ۔حجاب ایک وہ امتیازہے جو اسلام اپنی ماننے والیوں کو دے کر ان کی عزت افزائی کرتا ہے ۔دیگر مذاہب میں عورت کوکوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے یہ صرف اسلام ہی ہے جو عورت کو نہ صرف ایک خاص مقام عنایت کرتاہے بلکہ اس کے قدموں کے نیچے بیٹے کی جنت رک کر بیٹے کو حکم دیتا ہے کہ اپنی ماں کی خدمت کر ۔یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو وراثت میں حصہ دیا۔

Islam

Islam

جس دین سے وابستگی کو ہم اپنی پہچان سمجھتے ہیں اسکا حق ادا کرتے ہوئے اسکی صحیح تعلیمات اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو دکھانے میں اپنامثبت کردار اداکریں اور عام آدمی کو اسلامی قوانین سے واقف کروائیں۔ آزادی و حریت نسواں، آزادی رائے اور جمہوریت مغرب کی اقدار اور بنیادیں ہیں تو مسلمان عورتوں کو حجاب سے منع کرنا آخر انسانی حق کو چھیننا نہیں تو کیا ہے۔۔۔؟؟ کیا کسی انسان کو زبردستی اس کی مرضی کے خلاف لباس پہنے پر مجبور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔۔۔ ؟؟ آئین سازی کے ذریعہ سے مسلمان خواتین سے یہ حق چھینے والے کیا مہذب دنیا کے ٹھیکدار کہلانے کے قابل ہیں؟؟صرف پردہ کی وجہ سے عورت کو معاشرے سے دور رکھنے یا عورت کو قید کرنے کی نشانی سمجھنا بھی مغرب کی لاعلمی ہی قرار دیا جا سکتا ہے، علاوہ ازیں مسلمان ممالک میں اسلام کے زریں اصول غیر مسلموں کو اپنی مذہبی رسومات اور لباس کی مکمل آزادی کیساتھ حکومتِ وقت کو ان کی حفاظت کا پابند کرتا ہے۔ مغرب میں عورت کی عزت وقارکا جو معیار و پیمانہ ہے وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات سے یکسر مختلف ہے۔

اس وقت پاکستانی معاشرہ کس طر ف جارہا ہے اور کیاسوچ رہاہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن مجھے ان دانشوروں پر ترس آتا ہے جو پاکستانی ثقافت کو ہندوستانی ثقافت سے نتھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بے شک پاکستان اڑسٹھ سال پہلے وجود میں آیا ہے لیکن میرا وطن سندھی، پختون، پنجابی، سرائیکی، بلوچی ثقافتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ اور مجموعہ ہے،جس میں ننگے سر، کھلے بال، بغیر دوپٹہ خاتون، نیم برہنہ بدن کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ یہ پہلو انتہائی غور طلب ہے کہ ایک طرف فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں مسلمان روایات اور شعائر کو آئین سازی کے ذریعے مسخ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ہمارے ہاں معاشرے میں مغربی اور ہندو روایات و کلچر کو کھلے عام میڈیا کے مختلف ذرائع سے سمویا جارہا ہے، جو قومیں دوسروں کی روایات، رہن سہن اور ثقافت کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں و ہ کوے کی طرح اپنی چال(اپنی شناخت و پہچان) بھول جاتی ہیں.

Muhammad Attique

Muhammad Attique

تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157