حجاب

Girls in Hijab

Girls in Hijab

تحریر : حافظہ ثوبیہ
اسلام علیکم دوستو…میں آج آپ لوگوں کو ایک کہانی سنانا چاہتی ہوں جو حقیقت پر مبنی ہے میں نے آجکل کے دور میں بہت دیکھا ہے کہ لوگ برقعے اور نقاب کو حقیر سمجھتے ہیں- اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہم سے کمتر ہیں نیچے درجے کے ہیں- پر ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے-
میں کل ایک پارک میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب ہی دو لڑکیاں نقاب اور برقعہ میں میرے ساتھ والے بینچ پر آکر بیٹھ گئیں اور میں سوچنے لگی کہ یہ لڑکیاں اتنی گرمی میں برقعہ کیسے پہن لیتی ہیں۔

میں سوچ ہی رہی تھی جب ایک لڑکی اور لڑکا میرے قریب ہی آکر بیٹھ گئے- میں نے سوچا وہ دونوں کپل ہونگے تو دوسرے بینچ پر برقعہ والی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ جاؤں- میں اٹھنے لگی تھی پر میرے ساتھ بیٹھی لڑکی نے مجھے روک لیا اور کہا کہ آپ کہاں جا رہی ہیں- میں نے کہا کہ آپ دونوں ﮈسٹرب ہونگے اسی لیے اس بینچ پر بیٹھ جاتی ہوں- اس نے میرے جواب میں کہا کہ ان گندی لڑکیوں کے ساتھ کیسے بیٹھی گیں۔

انہی تو بہت شوق ہے یہ سب پہننے کا گرمی میں کون پہنتا یہ سب اور یہ تو میرے کالج میں بھی ایسے ہی پہن کر آتی ہیں- جب اتنا ہی شوق ہے نقاب کرنے کا اور برقعہ پہننے کا تو گھر سے نکلتی کیوں ہیں- اس لڑکی کے الفاظ مجھے بہت برے لگے- میں سوچنے لگی کہ یہ لڑکیاں کتنی خوش نصیب ہیں جنھیں اس دور میں بھی ہدایت ملی ہوئی ہے…اللہ نے ہمیں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا ہے پر اللہ نے ہمیں دنیاوی برائیوں سے دور رہنے کا کہا ہے اور ہم اللہ کی بات نہیں مانتے- جو برقعہ اور نقاب میں لڑکیاں یا عورتیں نظر آئیں ان کو ہم حقیر سمجھتے ہیں-

یہ دنیا ہی حقیر ہے اور ہم بھی ان عورتوں سے کمتر ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ کے سامنے بہت اونچے مرتبے پر ہونگے- یہ دنیا تو فانی ہے- یہاں سے ہمیں کیا لے کر جانا ہے؟؟ صرف اپنے اعمال…تو ہمیں چاہیے کے ایسے لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ ان سے سبق حاصل کریں کہ یہ برقعہ پہن کر بھی اپنی گردنیں نہیں جھکاتیں ہیں کیونکہ یہ اچھے سے جانتی ہیں کہ ہم بہت اونچے لوگ ہیں یہ دنیا تو کہتی رہتی- اللہ سبحانہ و تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے امت مسلمہ کی خواتین کو ’’حجاب‘‘ کی صورت میں ایک ایسا انمول تحفہ عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ماں، ہر بیٹی اور ہر بہن اگر چاہے تو اپنی ذات کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔

ہم اپنے موبائل کو پروٹیکٹر لگا سکتے ہیں پر اپنے آپ کو ساری دنیا کو دکھاتے ہیں اور یہ اللہ کو نہیں پسند ہے- اسی لیے ہم لڑکیوں کو چاہیے کہ ہم موبائل کو پروٹیکٹر لگانے کے بجائے اپنے آپ کو پروٹیکٹر لگائیں تاکہ اس دنیا کی میلی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں- جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حجاب کی ضرورت پڑی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ اوباش لڑکے خواتین کو گزرتے ہوئے تنگ کیا کرتے تھے، مدینہ منورہ کے صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہماری ازواج کو مدینہ منورہ کے اوباش لڑکے پریشان کرتے ہیں اور وہ یہودی لڑکے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہچان نہیں ہوتی کہ یہ یہودی خواتین ہیں یا مومنات ! تو یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرق اس طرح واضح فرما دیجئے کہ مومنات کی انفرادیت واضح ہو جائے اور وہ محفوظ ہو جائیں‘‘۔ جس پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں۔ پھر اس کے بعد ان آیات پر سختی سے عمل اس طرح کیا گیا کہ تمام مسلم خواتین جب بھی گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہوتی تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ النور میں حکم فرمایا :
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ“

Hijab

Hijab

آپ لوگوں کو یہ سب باتیں بتانے کا مقصد تھا کہ میری عزیز بہنوں یہ اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس حکم کو مانیں اور اس پر عمل کریں- اگر میری کہانی بری لگی ہو تو میں معافی چاہتی ہوں- یہ سب بتانا میرا فرض تھا اور اب عمل کرنا آپ کا کام ہے…اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور عمل کرنے کی توفیق دے- (جزاک اللہ)

تحریر : حافظہ ثوبیہ