واشنگٹن (جیوڈیسک) آٹھ سال قبل، ہلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کی جیت کے قریب پہنچ چکی تھیں، جب اُنھوں نے ایک کروڑ 80 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، لیکن ابھرتے ہوئے سیاست داں، سینیٹر براک اوباما سے مات کھا گئی تھیں۔
شکست تسلیم کرتے ہوئے، اپنی تقریر میں کلنٹن نے خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے لیے زندگی بھر جاری رکھی گئی اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’حالانکہ اس بار ہم اتنے اونچے نہیں جاسکے، ہمارے لیے شیشے کی چھت سخت ثابت ہوئی۔ آپ کا شکریہ۔ چھت میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اور اس میں سے روشنی چمک رہی ہے، جیسا کہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس سے ہمیں یہ توقع ہو چلی ہے اور ہمیں آگہی مل چکی ہے کہ اگلی بار یہ راستہ نسبتاً سہل ہوگا‘‘۔
اس بار، کلنٹن کو نامزدگی ملی ہے اور شیشے کی چھت کو توڑ کر وہ امریکہ کی صدر بننے کی توقع رکھتی ہیں۔ لیکن، انتخاب سے چند ہی روز قبل، کلنٹن اپنی خاصی سبقت کو برقرار نہ رکھ سکیں، جو عام جائزوں کے مطابق اُنھیں مل چکی تھی۔
انتخابات سے ایک ہفتہ قبل جاری ہونے والے قومی اعداد کے مطابق، کلنٹن کی یہ سبقت صرف ایک پوائنٹ باقی رہ گئی ہے، جب کہ پچھلے ہفتے اُنھیں 12 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔ دیگر عام جائزہ رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی برتری کو اِسی قسم کا دھچکا پہنچ چکا ہے، جس سے یہ سوال ابھرتا ہے آیا وہ شیشے کی چھت کو پاش پاش کر پائیں گی، جس کے لیے وہ ایک طویل عرصے سے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔
اگر وہ آٹھ نومبر کے انتخابات میں جیت جاتی ہیں، تو وہ نیو یارک سے خاتونِ اوّل، پھر امریکی سینیٹر، وزیر خارجہ اور پھر ’میڈم پریزیڈنٹ‘ بن جائیں گی۔
رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ دونوں ہی باتیں ہیں: کلنٹن سے محبت اور نفرت کی جاتی ہے۔ وہ دنیا کی مقبول ترین خاتون ہیں۔ وہ لوگ جو اُنھیں ذاتی طور پر جانتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ تپاک کے ساتھ ملتی ہیں اور نجی زندگی میں وہ اچھی مزاح کی مالک ہیں۔ ساتھ ہی، وہ کھل کر اپنی ذات کے بارے میں بہت سی چیزیں بتاتے سے گریز کرتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کلنٹن ناقابلِ بھروسہ ہیں؛ کئی بار اُن کے خلاف تفتیش ہو چکی ہے، حالیہ دِنوں کے دوران نجی اِی میل سرور کے استعمال کے معاملے پر، جس کا تعلق اُس وقت سے ہے جب وہ اوباما کی پہلی انتظامیہ میں امریکی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھیں۔
شیشے کی چھت میں دراڑیں وہ 1947ء میں شکاگو کے ایک متوسط طبقے میں پیدا ہوئیں۔ یہ بات ہیلری رودھم کلنٹن نے اپنی سوانح عمری میں لکھی ہے جو 2003ء میں شائع ہوئی، جس میں اُنھوں نے بچپن کی خوشگوار یادیں درج کی ہیں۔ اُن کے والد ری پبلیکن پارٹی کے سخت حامی تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی والدہ کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا، جن کی وجہ سے ہی وہ سیاست میں آئیں۔
اُن کی والدہ کا نام ڈوروتھی رودھم تھا، حالانکہ اُن کا بچپن مختلف انداز کا تھا۔
جب وہ نوجوان تھیں، ہیلری نے ری پبلیکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اُنھوں نے ’ویلزلی کالج‘ میں داخلہ لیا اور سیاست میں زیادہ متحرک ہوئیں، جب 1969ء میں اُنھوں نے خواتین کے اسکول کے آغاز کی کارروائی کے سلسلے میں تقریر کی۔
وہ ’یئل لا اسکول‘ گئیں، جہاں وہ ری پبلیکن سے ترقی پسند ڈیموکریٹ بنیں۔ وہیں لائبریری میں، اُن کی ملاقات مستقبل کے شوہر، بِل کلنٹن سے ہوئی۔ دونوں کی 1975ء میں شادی ہوئی، جس کے بعد وہ اُن کے ہمراہ ارکنسا کی ریاست میں واقع گھر منتقل ہوئیں، جہاں وہ سنہ 1978 میں گورنر منتخب ہوئیں۔
بِل سے زیادہ ’سمارٹ‘ کلنٹن کی بیٹی، چیلسیا ارکنسا میں پیدا ہوئیں۔ اور وہ وہیں تھیں کہ ایک سیاسی صحافی، رون فورنیر نے کلنٹن خاندان کے بارے میں ایک تحریر کی۔ لٹل راک اور بعدازاں وائٹ ہاؤس میں اُن صحافی کو خاندان تک رسائی حاصل رہی۔
فرنیر نے بتایا کہ اُن کے خیال میں ہیلری کلنٹن سابق صدر بِل کلنٹن سے زیادہ سمارٹ اور حس مزاح والی خاتون ہیں۔ اگر وہ کسی ایک کے ساتھ شراب پینا پسند کریں گے، تو وہ ہیلری کلنٹن ہوں گی۔
باب وینئر، کلنٹن انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے سابق ترجمان رہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ کسی مسئلے کو سمجھنے اور اُس کا حل تلاش کرنے کے حوالے سے، ہیلری کلنٹن اپنے شوہر یا پھر صدر براک اوباما سے زیادہ سمارٹ ہیں۔