ہندو انتہا پسندی اور جلتی وادی

Kashmir Solidarity Day

Kashmir Solidarity Day

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری

بھارت میں برسر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور دوسری بار وزیر اعظم بننے والے نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 بروز پیرکو آئین کی شق 370 اور 35 اے کے خاتمے کا اعلان کر کے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حثیت اور خصوصی اختیارات کو ختم کردیا ،اس کا باقاعدہ اعلان بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کیا ،موجودہ اور بھارت کے چودھویں منتخب صدر رام ناتھ کوونداس بل پر پہلے ہی دستخط کر چکے تھے جسکی وجہ سے یہ تبدیلی فوری قانونی درجہ حاصل گئی ، سانچ کے قارئین کرام!ہندو انتہا پسند بر سراقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی طویل عرصہ سے بھارتی آئین میں ایسی تبدیلی چاہتی تھی جس سے جموں وکشمیر کو حاصل منفرد حثیت کا خاتمہ ہو ، اب بات کرتے ہیں کہ یہ آرٹیکل 370 تھا کیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، پہلی بات تویہ کہ اس تبدیلی سے بھارتی آئین کی رُو سے جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا، اب مقبوضہ کشمیر میں مرکز کے زیر انتظام دو علاقے جموں وکشمیر اور لداخ بن گئے ہیں اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے جبکہ قانون ساز اسمبلی جموں و کشمیر میں تو ہوگی لداخ میں نہیں ہوگی ،آرٹیکل 370 کی ایک شق جس کے مطابق بھارتی صدر تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہیں کو برقرار رکھا گیا ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ اب لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے داخلہ امور چلائیں گے ،علاقہ لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام بھی کیا گیا ہے،اس تبدیلی سے پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری سے ہی کسی بھی قانون کونافذکیا جا سکتا تھا ،اب بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی براہِ راست ہو گا،مزید یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو قوانین نافذ تھے وہ بھی ختم ہو جائیں گے، ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کی جگہ پانچ سال کر دی گئی ہے ،آرٹیکل 370کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی،آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ کے پہچان ہوتی تھی،آرٹیکل 35 اے کے تحت ریاست جموں کشمیر سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا۔

سرکاری ملازمت اور آزادانہ طور سرمایہ کاری بھی نہیں کرسکتا تھا یہاں تک کہ کشمیری خواتین سے شادی کرکے بھارت کی کسی اور ریاست یا علاقہ میں بھی نہیں جا سکتا تھا، اب دفعہ 35اے کو ختم کرنے سے کسی بھی بھارتی شہری کو اول الذکر تمام حقوق حاصل ہوجائیں گے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر فلسطین بن جائے گا ،کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ یہ حفاظتی دیوار گرنے سے وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں اُن کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو جائے گا۔

یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 سے 1932 کے درمیان رائج کیے تھے اور ان ہی قوانین کو 1954 میں ایک صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ بھارتی آئین میں شامل کیاگیا تھا،کشمیر کا مسئلہ کتنا پرانا اور حل طلب ہے اس پر بارہا سانچ کے قارئین کرام کے لئے لکھ چکا ہوں آج پھر مختصر سا ذکر کرتا چلا جائوں ،73 سال پہلے 27 اکتوبر 1947کو بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوج کے زریعے قبضہ کیا ،سات دہائیوں سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں جسکی سب سے بڑ ی وجہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اور وادی پر زبردستی قبضہ جمائے رکھنا ہے ،بھارت کا کشمیری خاص طور پر کشمیری مسلمانوں سے روا رکھے جانے والا سلوک ناقابل برداشت ہے۔

آج بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں جو تلخی اور تناؤ موجود ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یقینا مسئلہ کشمیر ہے ، پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری 27 اکتوبر کو بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیری بھارت کے ظلم وستم کے خلاف احتجاجی ریلیاں اور تقریبات منعقد کر کے عالمی دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھارت کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے لئے دباؤ ڈالیں ، مسئلہ کشمیر پر موجودہ تلخی کی ایک بڑی وجہ بھارتی حکومت کا شدت پسند وں کے ہاتھ میں آنا ہے ، بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کا سیاسی پس منظر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مودی نے ہمیشہ اقتدار مسلمانوں کے خلاف اقدامات کر کے حاصل کیا، اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو 1965کی جنگ نے پاک بھارت تعلقات میں عوامی سطح پر نفرت اور دشمنی کو گہرا کیا 1971 کی جنگ کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام عظیم سانحہ ہے ، محدود پیمانے پر جھڑپیں سیاچین کے مسئلہ اورکارگل کے محاذ پر ہوئیں بعد ازاں ممبئی حملہ اور دیگر واقعات کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی واقع نہ ہوسکی۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا لیکن بھارت کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سات سے زائددہائیوں سے دونوں ممالک میں کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے آزادکشمیر کے رہنے والے اور پاکستان کی عوام مقبوضہ وادی کے نہتے شہریوں کی اخلاقی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں ،کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت کے نتیجے میں کشمیر میں شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کیلئے بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و ستم اور بربریت نے مقبوضہ وادی کے رہنے والوں میں جذبہ آزادی کو مزید تقویت فراہم کر رکھی ہے ، اگر بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کوایٹمی جنگ کے منڈلاتے سائے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ،بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم بربریت کا جو پہاڑ 5اگست 2019سے کرفیو کے نفاذ کے بعد توڑ رہی ہے وہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لئے ایک چیلنج کی حثیت رکھتا ہے ،سانچ کے قارئین کرام !27 اکتوبر کے یوم سیاہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری مناتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمیر پر بھارتی قبضے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے حوالہ سے واضح طورپر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کرہ ارض کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے، ہزاروں نوجوانوں کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا ہے، بھارت کی ریاستی دہشت گردی آج پہلے سے کہیں زیادہ سفاکانہ رخ اختیار کر گئی ہے، عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھارت کے اس جبر کو ختم کرنے کا بھر پور مطالبہ کرتے ہیں نام نہاد “بڑی جمہوریت “ہونے کے دعویدار بھارت کا اصل چہرہ مکمل طورپر بے نقاب ہوچکا ہے، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور ذرائع ابلاغ کے بلیک آؤٹ کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، پاکستان بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کی منسوخی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقو ق کے احترام و آزادی کو یقینی بنانے، عالمی برادری بھارت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے امن و سلامتی کو لاحق خطرات کو روکنے میں کردار ادا کرے، کشمیریوں سے غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ کشمیری بھائیوں و بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا، پاکستان کشمیریوں کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارایت کے حصول تک انکی ہر سطح پر حمایت جاری رکھے گا، دنیا میں ریاستی دہشت گردی کی بد ترین صورتحال سے دوچار علاقوں میں سے سرفہرست مقبوضہ کشمیر کی وادی ہے بھارتی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں نے گزشتہ تین دہائیوں سے ریاستی جبر وظلم کی جو کہانیاں مقبوضہ کشمیر میں رقم کی ہیں وہ شاید ہی موجودہ صدی میں کہیں نظر آئی ہونگی نہتے کشمیری مسلمان نوجوانوں پر ظلم وستم کے ساتھ ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت دری کے واقعات نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں اوراقوام متحدہ کے ادارہ کی جانب سے مظلوموں کے لئے عملی اقدام نہ کرنے پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے مقبوضہ وادی پر ظلم وستم کی داستان تو تہتر برس قبل سے جاری وساری ہے لیکن انیس سو اسی کی دہائی کے آخر سے اب تک ظلم وبربریت کے ہزاروں واقعات رونما ہوچکے ہیں ،سانچ کے قارئین کرام !کشمیر کا مسئلہ کب اور کیسے شروع ہوا اپنے سابقہ کالم سانچ سے کچھ نئے پڑھنے والوں کے لئے شامل کرتا چلوں ” پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پرتین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں 1947 میں ریاستوں کے الحاق کے بارے میں بنایا گیا فارمولا جموں وکشمیراور چند دیگر ریاستوں پر لاگو نہ ہوسکنے کا سب سے بڑا سبب انگریز اور ہندوں رہنماؤں کی مکاریاں تھیں وائسرائے ہندوستان لارڈ ماؤنٹ بیٹن ،نہرو اور مہاراجہ کشمیرکے گٹھ جوڑ نے جو غیر منصفانہ فیصلہ کیا اِس کا خمیازہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان گزشتہ تہترسال سے بھگت رہے ہیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر ظلم وزیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

تقسیم ہند کے وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلم آبادی والے علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کیے جائیں گے اور ریاستیں دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت سے الحاق کے فیصلہ میں آزاد ہونگی لیکن وائسرائے ہند جو کہ برطانوی حکومت کا نمائندہ اور ہندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا اس نے جموں وکشمیر کے مہاراجہ اور نہرو کے ساتھ ساز باز ہو کر جموں و کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا جبکہ حقیقت میں وہاں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی تھی اس بنیادپر کشمیر کی وادی کاپاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہیے تھا لیکن غیر منصفانہ فیصلہ نے کشمیری مسلمانوں کے لیے آزادی کی تحریک شروع کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ چھوڑا ،ہری سنگھ 1925تا1949تک حکمران رہا تقسیم ہند کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں کی خواہش تھی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ وہاں کے مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا آخر کار ڈوگرہ کے تاخیری حربے کامیاب رہے 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے بھارتی فوج کو مدد کے لیے پکارااور بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دے دی۔

بھارت پہلے سے ہی کشمیر پر قبضہ کے لیے موقع کی تلاش میں تھا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، سری نگر پر بھارتی قبضہ ہوگیا جبکہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوگئی یکم نومبر 1947 کو گلگت میں ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ ہوتی رہی 16 نومبر 1947 کو پاکستان نے اس پر کنٹرول حاصل کیا ،بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ 1947سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دینے سے انکاری ہے” سانچ کے قارئین کرام ! تایخی حوالوں سے دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کے وعدہ سے بھارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماننے کے بعد مکر چکا ہے ،گزشتہ سال کے آخری چھ ماہ میں مقبوضہ وادی میں حریت پسندوں کے ساتھ معصوم کشمیری نوجوانوں اور خواتین پر ظلم وبربریت کی انتہا کر دی گئی ہے ،قابض فوج نے ضلع پلوامہ میں انٹرنیٹ سروس معطل کررکھی ہے،کرفیو کے سخت نفاذ سے کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ کی باڈی نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ کشمیر میں جاری بربریت کے پیچھے بھارتی ریاست ملوث ہے۔پانچ فروی کو ایسا کیا ہوا کہ گزشتہ تیس سال سے یہ دن پاکستان ،کشمیر سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اِس روز حکومت پاکستان کی جانب سے تعطیل کا اعلان ہوتا ہے، ہوا کچھ یوں کہ 1990کو جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا جائے گا لہذا پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ بھر پور طریقے سے کیا گیا ملک بھرخاص طور پر پنجاب میں زبردست ہڑتال ہوئی بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو آزادی رائے کا حق دے اورجہاد کشمیر میں کامیابی کے لئے مساجد اور بڑے بڑے اجتماعات میں دعائیں مانگیں گئیں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا،اس دن سے ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں کو ہر ممکن اخلاقی تعاون کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مکمل اخلاقی سپورٹ بھی کیا جاتا ہے سانچ کے قارئین کرام ! کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے گزشتہ تہترسال سے کوششیں جاری ہیں۔

جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت ہیں بھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان ایک مسلمہ حقیقت ہے اور دونوں ملکوں کی عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مسئلہ کشمیر کا فوری حل وقت کی ضرورت ہے پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا ملک ہے جسکا دفاع ناقابل تسخیر ہے،پاک فوج وطن عزیز کے دفاع کے لئے ہر لمحہ تیار ہے وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنے کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے بے شمار قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اورپاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی امسال 5فروی کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے اس روز کشمیریوں کو ہر ممکن اخلاقی تعاون کا یقین دلانے کے لئے ملک بھر میں سیمینار ،واک اور اقوام متحدہ کو یاداشتیں پیش کی جائیں گی ،ایک اندازے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں نوے ہزار سے زائدکشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور ہزاروں خواتین کی عصمت دری کے واقعات رونما ہو چکے ہیں افسوس اقوام عالم بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں ظلم وبربریت سے روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے اقوام متحدہ کے ادارہ کی خاموش دنیا بھر کے مسلمانوں خاص طور پر کشمیریوں کے لئے اذیت کا سبب بن رہی ہے حالانکہ ادارہ اقوام متحدہ میں بھارت نے تہترسال قبل کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا بھارت نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا پھرجلد ہی منحرف ہو گیا تھاپاکستان آج بھی کشمیر میں رائے شماری کے حق میں ہے۔

بھارت سے انسانی حقوق کے علمبردار ممالک یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق کیوں نہیں دیا جارہا ؟ بے گناہوں کو شہید کیوں جا رہا ہے؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیوں نہیں کیا جارہا ہے ؟۔گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،جس کے تحت 25 جنوری سے 5 فروری تک مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز سے لے کر ضلعی سطح تک تقریبات منعقد کی جارہی ہیں25، جنوری سے الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس سے اندورن اور بیرون ملک کشمیر کا مقدمہ پیش کیا جارہا ہے،اس حوالہ سے دیگر پروگراموں کی تفصیل کچھ یو ں ہے ،27جنوری کو اسلام آباد میں ایک ثقافتی پروگرام ،28 جنوری کو پورے پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد اور اس کے متاثرین سے متعلق تصویری نمائش ،30 جنوری کو اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد جس کی صدارت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امام نے کرنا ہے31 جنوری کو فخر امام کی مسئلہ کشمیر پر پریس کانفرنس ،3 فروری کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں نوجوان نسل بشمول سماجی کارکنوں کے لیے پروگرام جس میں مسئلہ کشمیر سے متعلق زمینی حقائق پر طلبہ سے تبادلہ خیال ، 3 فروری کو ہی آزاد کشمیر میں پناہ گزین کیمپوں میں راشن کی تقسیم ،4 فروری کو ایوان صدر میں کشمیر ڈے کے حوالے سے تقریب کا آغاز اور تمام سفیروں کے سامنے بھارتی مظالم اور یکطرفہ اقدام سے متعلق حقائق کا پیش کیا جانا شامل ہے،5 فروری کو پورے ملک میں کشمیر ڈے منایا جائے گا اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائیگا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں چھ ماہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے،ان کا کہنا تھا کہ بھارت خطے کا امن داؤ پر لگا رہا ہے، ہم نے 16 اگست 2019 کو سیکورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھایا جبکہ 12 دسمبر کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ہدایت پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سیکورٹی کونسل کے صدر کو مراسلہ ارسال کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور سیکورٹی کونسل کے صدر سے ملاقات کا موقع ملا اور میں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سمیت بھارت کی عسکری سرگرمیوں سے متعلق مزید آگاہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک طریقے سے مسئلہ کشمیر پر موقف اپنایا ،شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ عمران خان نے واضح کیا کہ اگر اقوام متحدہ اور امریکا نے اس مسئلے کے حل پر توجہ نہیں دی تو دو جوہری طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی جس کے نتائج سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور اعجاز عالم آگسٹین ،ڈپٹی کمشنراوکاڑہ عثمان علی ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اوکاڑہ عمر سعید ملک ،پی ٹی آئی کے رہنما ئوں اور ٹکٹ ہولڈرز چوہدری سلیم صادق، چوہدری عبداللہ طاہر،چوہدری طارق ارشاد،رائے حماد اسلم کھرل، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس عزوبہ عظیم ،سماجی راہنما قمر عباس مغل ،سابق صوبائی وزیراشرف خان سوہنا ،چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن فدا افتخار میر،چیف آفیسرمیونسپل کمیٹی رینالہ خوردفیاض حلیم ہاشمی ، سی ای او ایجوکیشن سہیل اظہر ،سی او ہیلتھ ڈاکٹر عبدالمجید ،پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ کالج ظفر علی ٹیپو ،معروف کمپیئرپروفیسر ریاض خان ،سیکریٹری ڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی رانا محسن غلام صابر ،ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرسید سجاد گیلانی،ڈی ایس پی سٹی ندیم افضال ،ایس پی انوسٹی گیشن سلیم وڑائچ،کنٹرولر امتحانات ڈی پی ایس نبیل مسعود کیانی،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رئوف احمد ،اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ سیدہ آمنہ مودودی ،اسسٹنٹ کمشنررینالہ خورد قدسیہ ناز ، جبکہ دوسری جانب اپوزیشن ممبران قومی وصوبائی اسمبلی چودھری ریاض الحق جج ،چودھری ندیم عباس ربیرہ ، ممبر صوبائی اسمبلی غلام رضا ربیرہ،ممبر صوبائی اسمبلی میاں یاور زمان ،ممبر صوبائی اسمبلی چودھری افتخارحسین چھچھر،معروف سماجی سیاسی شخصیت فیاض ظفر چودھری ،سابق ممبر صوبائی اسمبلی میاں محمد منیر ،صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر افتخار امجد ، جنرل سیکرٹری ڈاکٹرشکیل انجم رامے ،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ رمضان ندیم چنڑ، جنرل سیکرٹری رانا فدا محی الدین،چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیٹی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ،وائس چانسلر یونیورسٹی آف اوکاڑہ ڈاکٹر محمد زکریا ذاکر ،انچارج ڈسٹرکٹ انڈسٹریل ہوم محکمہ صنعت زار رائے محمد عارف، میڈیکل سوشل ویلفیئر آفیسر اشتیاق احمد خاں،ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر ابرار،ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر چودھری نثار الحق ،علما اکرام و ممبران امن کمیٹی مولانا ظفر اللہ قمر لکھوی ، ڈسٹرکٹ خطیب قاری سعید عثمانی ،صاحبزادہ مولانا شکیل الرحمن قاسمی ،سمیت سیاسی سماجی مذہبی وکلاء صحافیوں سول سوسائٹی ، این جی اوزکے نمائندوں نے ضلع کے سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹی میں یوم یکجہتی کشمیر کے موضوع پر ملی نغموں ،تقریری مقابلوں ،پینٹنگ کے مقابلوں کا انعقاد متعلقہ سکولوں کالجوں کے سربراہان کے ساتھ کیا، محکمہ سپورٹس نے اسی مناسبت سے ہاکی ،کرکٹ اور فٹ بال میچز کابھی انعقاد کیا شہروں اور قصبات میں جدو جہد کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کی آزادی کے حوالے سے بینرز ،پوسٹرز ،پینا فلیکس آویزاں کیے ہیں۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372