برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے بھارت میں ہزاروں مسلم کش فسادات میں لاکھوں کی تعداد میں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہا ہے لیکن ہزاروں قاتل درندوں کو ہمیشہ بھارت میں برسر اقتدار طبقہ کی مکمل مدد و حمایت حاصل رہی ہے۔ پچھلے ادوار کی طرح آج بھی جن ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں وہ کھلے عام بے خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں اور پھرسے کسی احمد آباد گجرات اور مظفر نگر کی تلاش میں ہیں۔بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرح دنیا بھر میں ہندو مسلم فسادت کے حوالہ سے چشم کشا رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن معصوم بچوں اور عورتوں سمیت مسلم نوجوانوں اور بوڑھوں پر بدترین مظالم ڈھانے والے چونکہ ہندو ہیں اس لئے کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسی مسلمان ملک میں چھوٹا سا کوئی واقعہ ہوجائے تو طوفان بپا کر دیا جاتا ہے
مگر بھارت میں ہونے والے ان فسادات پر کبھی اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر حقوق انسانی کے عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بھارت میں مسلمانوں کو قدم قدم پر پریشانیوں کا سامناہے۔ تعلیم و صحت کے میدان میں وہ سب سے پیچھے ہیں۔ عبادات میں ان کو آزادی نہیں ہے۔ ہندو انتہا پسند سرکاری دفاتر سمیت چوکوں و چوراہوں میں بھی زبردستی مندر تعمیر کر رہے ہیں اور اس حوالہ سے سرکاری سرپرستی میں بھر پور مہم چلائی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے نئی مساجد تعمیرکرنا تو درکنار’ جو پہلے سے بنی ہوئی ہیں ان کا تحفظ کرنا بھی انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ بابری مسجد سمیت سینکڑوں مساجد اب تک شہید کی جاچکی ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی مسجدکی جگہ ماضی میں مندر ہونے کا دعویٰ کر دیا جاتا ہے اور پھر فسادات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سی مساجد ایسی ہیں جنہیں تاریخی ورثہ کے نام پر محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ وہاں مسلمانوں کو تو اندر داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
Hindu Extremists
لیکن ہندو انتہا پسند وہاں آزادی سے نا صرف آتے جاتے ہیں بلکہ وہاں بیٹھ کر ہی مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ بی جے پی، کانگریس اور دیگر تنظیمیں ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کر کے ہندوئوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور اب جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں مسلمانوں کے دل لبھانے کیلئے فریب دہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک پارٹی مسلمانوں کے زخم پرنمک چھڑکتی ہے تو دوسری پارٹی کے لیڈران مرہم پٹی کے ساتھ اپنے آپ کو ماضی کا محسن اورمستقبل کے رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان کے خیرخواہ بن کر ووٹوں کی بھیگ مانگتے پھرتے ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی بھی اب کہہ رہا ہے کہ گجرات میں ترقی کیلئے ہم ہندوئوں اور مسلمانوں کو دو پہیوں کی طرح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرا رویہ ہے جو بی جے پی وغیرہ نے اختیا ر کر رکھا ہے۔ تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ بی جے پی درحقیقت ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا ہی سیاسی ونگ ہے۔ اور اس کی چھتری تلے ہی خونی کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔
آر ایس ایس جسے تمام ہندو انتہا پسندوں کی ماں کی حیثیت حاصل ہے’کا قیام 17 اپریل 1926ء کو عمل میں لایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب آزادی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہندوستانی مسلمانوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کر رہی تھی اور مسلمان خصوصاً علمائے کرام برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہوکر انگریزوں کی گولیوں کانشانہ بن رہے تھے تو ایسے نازک وقت میں اسلامی شناخت کی سرکوبی، مسلم ماؤں بہنوں کی عصمتیں پامال کرنے اور برطانوی اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قتل وخون کا نظریہ پروان چڑھایا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھگوا جھنڈا بنانے کے بعد ترانہ تیار کیا گیا۔ ملیچھ، زانی ،غیرملکی اور ڈاکو سے تشبیہ دیکر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنیکا آغاز کیا گیا۔ 1934ء میں اسی آر ایس ایس نے گاندھی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اور تیس ہزارتنخواہ دار فوجیوں کی ایک خونی جماعت پی ایس پی کے نام سے تشکیل دی جس کے اہلکاروں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1985ء اور 1986ء میں علی گڑھ کی ماؤں’بہنوں کی عصمتوں کوت ار تارکیا گیا۔ 1987ء میں ملیانہ اور 1989ء میں قتل عام کے دوران بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992ء میں مسلمانوں کی عظمت کی نشان چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔
2002ء مارچ میں فسادات کے دوران ہزاروں ماؤں بہنوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتار دیا گیا، مالیگائوں، مکہ مسجد، ناندیڑ، ممبئی ٹرین دھماکوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث رہیں اور اب حال ہی میں ایک ہندو انتہا پسند ممبر اسمبلی کی جانب سے پاکستانی شہر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل کی ویڈیو کو ہندو نوجوانوں کی کہہ کر فیس بک پر اپ لوڈ کیا گیا اور پھر مظفر نگر میں بدترین مسلم کش فسادات بھڑکا کربیسیوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس دوران کئی مسلم مائوں بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، ہزاروں مسلمان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمان آج بھی ریلیف کیمپوں میں سخت مشکل ترین حالات میں اپنی زندگیوں کے ایام گزار رہے ہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، آئی بی، سی بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں اور ادارے جنہوں نے حالات کو کنٹرول کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ ان میں بھی بڑی تعداد میں ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے لوگوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ صحیح رپورٹیں پیش کرتے ہیں اورنا ہی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب ”ہو کلڈ کرکرے” میں بالکل درست تجزیہ پیش کیا ہے کہ ہندو انتہا پسندی کی جڑیں انٹیلی جنس بیورو کے اندر تک پھیل چکی ہیں اور ہیمنت کرکرے کو قتل ہی اس لئے کیا گیا تھا۔
کہ ا س نے مالیگائوں بم دھماکوں کے الزام میں سمجھوتہ ایکسپریس کے مرکزی مجرم کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ ٹھاکر، سوامی دیانند پانڈے سمیت کئی ہندو انتہا پسندوں کو نا صرف گرفتار کیا تھا بلکہ ان کے خلاف عدالت میں فرد جرم بھی داخل کی تھی کہ ان سب کا تعلق ابھینو بھارت، جن جاگرن سمیتی اور دوسری ہندو انتہا پسند تنظیموں سے ہے جو انڈیا کو ایک ہندو راشٹر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ بھارتی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ہی ہندوستان میں مسلم کش فسادات آج تک رک نہیں سکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مسلم نوجوان جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں کوئی ان کی مددکرنے کا تیار نہیں ہے۔ سالہا سال تک ان کی ضمانتیں نہیں ہوتیں اور دوسری طرف کرنل پروہت جیسے دہشت گردوں کو جیل میں بھی حاضر سروس سمجھتے ہوئے تنخواہیں دی جارہی ہیں اور اگر بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ جیسے دہشت گرد انیس سالہ عشرت جہاں فرضی جھڑپ کیس میں بے نقاب ہو بھی جائیں تو چارچ شیٹ بد ل دی جاتی ہے اور اصل مجرموں کا نام ہی اس میں سے نکال دیاجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلم کش فسادات کیسے رک سکتے ہیں؟ ساری دنیاکا میڈیا بھارت میں جاری مسلمانوں کے قتل عام پر رپورٹیں شائع کرتا رہا اسے کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لاتا۔
میں بھارت کی یہ صورتحال دیکھتا ہوں تو مجھے پاکستان یاد آجاتا ہے کہ جہاں پانچ سال گزر چکے ہیں کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکامگر ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے دیگر ساتھی ابھی تک ممبئی حملوں کے الزام میں جیل میں قید ہیں۔ بھارت کی طرف سے پہلے حافظ محمد سعید کے خلاف ممبئی حملوں میںملوث ہونے کا شور مچایا گیا۔ ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس چلتے رہے۔ انڈیا ڈوزیئرز پیش کرتا رہا۔ ہماری سابقہ حکومت کی طرف سے انڈیاکی وکالت کرتے ہوئے وہ تمام چیزیں جو محض میڈیا میں پروپیگنڈہ کی بنیاد پر شائع ہونے والی معلومات پر مبنی تھیں پیش کی جاتی رہیں۔
Hafiz Mohammad Saeed
لیکن عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں نا صرف باعزت طور پر بری کیا گیا بلکہ صاف طور پر لکھا گیا کہ حافظ محمد سعید یا ان کی جماعت کے کسی فرد کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ممبئی حملوں کے حوالہ سے حافظ محمد سعید کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا تو ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف انڈیا کہاں سے کوئی نئے ثبوت گھڑ کر لے آئے گا؟۔ یہ ایک سیاسی کیس دکھائی دیتا ہے اور مظلوم کشمیری قوم کا مقدمہ لڑنے والوں کو جیل میں بند رکھنے کی وجہ سوائے بیرونی دبائو کے اور کوئی نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات میں’ جب پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی بیرونی دبائو سے آزادی حاصل کرتے ہوئے انہیں فی الفور رہا کرنا چاہیے اور ملکی سلامتی و خود مختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔