بھارت کی ایک یونیورسٹی میں ایشیا کپ کے میچ میں پاکستان کی جیت کا جشن منانے پر 150 کشمیری طلباء کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ میرٹھ یونیورسٹی کے چیئرمین نے آئندہ کیلئے کسی کشمیری طالب علم کو داخلہ نہ دینے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ پاکستان کی فتح کا جشن منانے والے کشمیری طلباء کو تعلیم کیلئے پاکستان بھیج دینا چاہیے۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے میرٹھ یونیورسٹی کے طلباء کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے کمروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی اورساری رات یونیورسٹی سے باہر کھلے مقام پر سخت سردی میں ٹھٹھرنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ میں بھارت سے جیت پر خوشی کا اظہا ر کرنے پر بھارتی فوجیوںنے کشمیری نوجوان کا گلا کاٹ ڈالاجس کی حالت ابھی تک سنبھل نہیں سکی ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر کے صورہ میڈیکل ہسپتال میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔
ہندوئوں کی مسلمانوں سے نفرت آج سے شروع نہیں ہوئی ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت سب ہندوئوں کے ذہنوںمیں یہی لاوا پکتا رہا ہے اور وہ کسی طور مسلمانوں کوبنیادی حقوق فراہم کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست، معیشت و معاشرت ہو یا صحت کا میدان بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کو کبھی بھی اہم مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ ہندو مسلمانوں کو خود سے انتہائی کم تر خیال کرتے ہیں۔ان کے ذہنوں میں یہ بات بچپن سے ہی پختہ کر دی جاتی ہے کہ مسلمان یہاں کے مقامی نہیں ہیں بلکہ باہر سے آئے ہیں اور دھرتی ماتا کو پلید کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے چونکہ اس خطہ میں کئی سو سال تک حکومت کی ہے اس لئے انہیں ہر صورت مسلمانوں سے بدلہ لینا ہے۔
ہندوئوں کومسلمانوں کا وجود کبھی برداشت نہیں رہا۔ ان کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا اورا س بنیاد پر بدترین فسادات ہوتے رہے ہیں کہ یا تو مسلمان ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں یا پھر ہندو مذہب قبول کر لیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کیلئے شنگھٹن اور شدھی جیسی تحریکیں بھی چلائی جاتی رہی ہیں جو کہ متعصب ہندو زہنیت کا منہ بولتا ثبوت تھیں ۔یہی وہ بنیاد ی وجوہات تھیں جس کی بنیادپر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور مسلمانوں نے دوقومی نظریہ کا علم تھام کر لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے اورایک الگ خطہ حاصل کیا گیا جسے آج دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ قیام پاکستان کوچھیاسٹھ برس گزر گئے ہیں لیکن ہندوئوں کی مسلمانوں سے نفرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
Indian jail
بھارتی جیلیں مسلمانوں سے بھری ہوئی ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے ہندوستانی مسلمان کئی کئی برسوں سے بغیر کسی جرم کے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں کوئی انہیں رہائی دلوانے والا نہیں ہے۔بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں لیکن جیلیں وہ واحد جگہ ہیں جہاں آبادی کے تناسب کے حساب سے مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارتی مسلمان چوری، ڈکیتی، تخریب کاری و دہشت گردی اور ا س نوع کی دیگر وارداتوں میں بہت زیادہ ماہر ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا مسلمان ہونا اور پولیس، آئی بی اور خفیہ ایجنسیوں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی ہے جنہوں نے حیلوں بہانوں سے اٹھارہ سے تیس سال تک کے مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالنا اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے۔مکہ مسجد، مالیگائوں بم دھماکے ہوں یا سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ‘ دہشت گردی کے ان تمام واقعات میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کا ملوث ہونا ریکارڈ پر آچکا ہے تاہم اس کے باوجود جب کبھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہو فورا مسلمانوں کے گرد شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور اگر کوئی وکیل ان کا کیس لڑنے کیلئے تیار ہو جائے تو اسے بیوی بچوں سمیت قتل کرنے اور اس کا گھر جلانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
یہ بات بھی ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی ‘ مسلمانوں کی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے کسی نے عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ہندوئوں کی نفرت کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مسلمان اداکار بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ وہ جتنامرضی خود کو لبرل ثابت کرنے کی کوششیں کر تے رہیں انہیںہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں خود پورے بھارت میں سرکاری دفاتر، چوکوں و چوراہوں اور دیگر پبلک مقامات پر بھی ڈنکے کی چوٹ پر مندر بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں مگر مسلمانوںکو نئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دینا تو درکنا رپرانی تاریخی مساجد میں انہیں نمازوں کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سینکڑوں مساجد و مدارس محض تعصب کی بنا پر شہید کئے جا چکے ہیں اور بیسیوںمساجد کے بارے میں یہ باتیں مشہور کر دی گئی ہیں کہ یہاں پہلے مندر ہوا کرتے تھے لہٰذا اس بنیاد پر آئے دن فسادات بھڑکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کبھی گائے ذبح کرنے یاکسی مندر کی مورتی توڑنے کا شوشہ چھوڑ کر حالات خراب کئے جاتے ہیں تو کبھی مسلمان نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو شادی کیلئے ورغلانے کے بہانے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا جاتا ہے۔ ممبئی جیسے شہر میں کسی اچھی رہائشی کالونی میں اگر کوئی مسلمان اپنے لئے گھر خریدنا یا کرایہ پر لینا چاہے تو اس کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
ابھی چند دن قبل ہی بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ مسلم کیپٹن جس نے 1990ء کی دہائی میں سینکڑوں ہندوستانیوں کی عراقی فو ج سے جان چھڑائی تھی اور اپنے ملک کیلئے ہیرو کا سا کردار ادا کیا تھا’ نے پوری کوشش کی کہ وہ ممبئی کی کسی اچھی ہائوسنگ سوسائٹی میں اپنے لئے کوئی گھر خرید یا کرایہ پر لے کر وہاں اپنی رہائش رکھ سکے مگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ ہندوئوں کے تعصب اور گھٹیا ذہنیت کی حالت تو یہ ہے کہ پاکستان اگر بھارت سے میچ جیت جائے تومقامی مسلمانوں کی بستیوںکوآگ لگادی جاتی ہے اور کہاجاتاہے کہ تم پاکستان کے جیتنے پر خوش ہوتے ہو اس لئے تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک نابینا کھلاڑی کو محض اس لئے تیزا ب پلا دیا گیا کہ وہ بھارتی ٹیم سے میچ جیتنے میں اہم کردار اد انہ کر سکے۔ پچھلے سال جنوری میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دھولیہ ٹائون میں بھی پاکستان کے ون ڈے سیریز جیتنے پر بدترین مسلم کش فسادات ہوئے تھے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارتی پولیس بھی ا س دوران فسادات کنٹرول کرنے کی بجائے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کر تی رہی۔کئی مسلمان شہید سینکڑوں زخمی ہوئے،ہزاروں مسلمانوں کو علاقہ سے ہجرت کرنا پڑی، مسلمانوں کا کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کیا گیا مگر آج تک کسی نے ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھی۔چند دن قبل بھارتی ریاست اترپردیش کی سوامی وویکا نند یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک سو پچاس سے زائد کشمیری طلباء کو بھی محض پاکستان کے جیتنے پر خوشی کا اظہا رکرنے کے جرم میں یونیورسٹی سے مار مار کر نکال دیا گیا اور جب طلباء نے میرٹھ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے شکایت کی تو الٹا انہیں ہی قصور وار ٹھہرایا گیا۔ انہیں پانچ ہزار روپے فی کس کے حساب سے جرمانہ عائد کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اگر انہیں پاکستان کے میچ جیتنے کی اتنی ہی خوشی ہے تو وہ پاکستان چلے جائیں۔بھارتی میڈیا میں یہ خبریں شہ سرخیوں سے شائع ہو ئی ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے گلمرگ علاقہ میں بھی خود بھارتی فوجیوں نے بدترین ریاستی دہشت گردی کامظاہرہ کرتے ہوئے محمد یوسف ریشی نامی ایک کشمیری نوجوان کا گلا اس بنیاد پر کاٹ ڈالا کہ اس نے شاہد آفریدی کی طرف سے بھارتی بائولرز کی دھنائی کرنے پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کے شدید احتجاج پر کہاجارہا ہے کہ واقعہ میں ملوث بھارتی فوجیوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج تک مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کے کسی اہلکار کو معمولی سی بھی سزا دی گئی ہے جو’ اب دی جائے گی؟۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندومسلمانوں کا ازلی دشمن تھا، ہے اور رہے گا۔
اس کے دل میں مسلمانوں کے لئے کبھی ہمدردی پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ ان کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جماعةالدعوة کی طرف سے اس وقت پورے ملک میں تحفظ نظریہ پاکستان مہم کی جو ملک گیر مہم جاری ہے وہ انتہائی قابل تحسین اقدام ہے۔ ان دنوں جماعةالدعوة کے زیر اہتمام شہر شہر، گائوں گائوں میں نظریہ پاکستان کانفرنسوں کا انعقاد کر کے نوجوانوں کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کیاجارہا ہے۔ اسی طرح 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر پورے ملک کی طرح لاہور میں مینار پاکستان سے مسجد شہداء مال روڈ تک احیائے نظریہ پاکستان مارچ کااعلان کیا گیا ہے جس میں ملک بھر کی تمام دینی وسیاسی جماعتوں کی قیادت کو شریک کیاجائے گا۔ان جلسوں، کانفرنسوں اور نظریہ پاکستان مارچ کرنے کے نوجوان نسل پر درر رس اثرات مرتب ہوں گے اور انہیں ہندو بنئے کی ذہنیت اور قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہی حاصل ہو گی۔
India, Pakistan
تحفظ نظریہ پاکستان کی یہ مہم جاری رہنی چاہیے اوریہ بات ہر صورت ہمیں اپنے ذہنوں میں بٹھا لینی چاہیے کہ ہم جتنا مرضی بھارت سے یکطرفہ دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہیں۔ ویزہ سروس میں نرمی، اپنے ہی دریائوں سے بجلی خریدنے کے معاہدے، ثقافتی وفود کے تبادلے اور کبڈی میچوںکے مقابلے کرتے رہیں ‘ ہندو بنئے کی ذہنیت نہیں بدلے گی۔ وہ مسلمانوں اور پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔