تحریر: محمد قاسم حمدان ٢٣ مارچ 1940ء کو ہندوستان کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کا جم غفیر منٹو پارک میں جمع ہوا۔ یہاں انگریز کے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے علیحدہ وطن بنانے کا عزم کیا۔ اس تاریخی اجلاس سے قاہد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ھو رہا تھا قاہد نے دوران تقریر سی ار داس کے نام لالہ لاجپت کا ایک خط (1924ئ)پڑھ کر سنایا کہ جس میں انہوں نے لکھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ھیں جنہیں مدغم کرکے ایک قوم بنانا ناممکن ھے۔ اس خط نے سامعین کو ششدر کر دیا ملک برکت علی جو لاہور سے مسلم لیگ کے نماہندے تہے ان کے منہ سے نکل گیا کہ لاجپت تو نیشلسٹ ہندو ھیں اس پر قاہد نے زور دے کر کہا کہ کوئی ہندو نیشلسٹ نہیں ھو سکتا ہر ہندو اول تا اخر ہندو ہے اس کی بہت سی مثالیں موجود ھیں کہ گانگریس کا دم بھرنے والے مسلمانوں کو سیکولر کانگریس میں شامل ہندووں کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔
کانگریس تھی جس نے کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا جس کے دور میں مسلمانوں سے حیدرآباد ،جونا گڑھ چھین لئے گئے۔ 1937ء کی کانگریس وزارت قائم ھوئی تو شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع ہوئیں ۔ہندی کا جبری نفاذ ،بندے ماترم کو مسلط کرنے کی تمام کوششیں ھوئیں ۔کانگریس میٹھا میٹھا زہر اتارکر مارنے کے طریقہ واردات پر عمل پیرا تھی جبکہ بھگوا حکومت سب کچھ علی الاعلان کر رہی ہے نازی ازم کی حامل RSS کی حامل حکومت میںبھارت مسلمانوں ،دلتوں عیسائیوں اور سکھوں کے لئے جہنم سے کم نہیں بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ھو چکا ہے۔ پورا ہندوستان ان کے لئے گجرات بن چکا ہے مودی نے پارٹی انتخابات کے دوران مسلمانوں اور دلتوں کے کروڑوں ووٹ ہتھیانے کے لئے بہت قسمیں اور وعدے دیئے تہے کہ ہر ہندوستانی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے ائیں گے ،اسمارٹ سٹی بنے گا ،انڈیا فرسٹ اور گڈ گورننس ھو گی زعفرانی قوتوں نے کہا کہ مودی کی سرکار بنوا دو تو ہندوستان میں ایک ادمی بھی غریب نہیں رہے گا اور ھمارا روپیہ پونڈ کے برابر ھو جائے گا روپیہ تو پونڈ کے برابر نہ ھو سکا لیکن غربت انتہا کو پہنچ گئی ہے۔
کانگریس اور بی جے پی سبھی نے اپنی ناکامی وں کو چھپانے کے لئے ہمیشہ مسلم دشمنی کا کارڈ کھیلا۔آج مودی سرکار بھی پاکستان دشمنی اور مسلم دشمنی کے ذریعے ہندوستان کی وزارت اعظمی پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مودی کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چائیے کہ لاشوں پر اقتدار کی کرسیاں چند دنوں کے لیے ضرور سجائی جا سکتی ہیں لیکن ریت کی دیوار پر تاج محل نہیں بن سکتا ۔ مودی سرکار نے پندرہ ماہ میں بھارت کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے جب سے بی جے پی نے حکومت سنبھالی ہے بھگوا دہشت گردی کی گویا نکیل ھی نکال دی گئی ہے ہر روز مسلمانوں کے لئے نئے نئے جان لیوا فتنے کھڑے کئے جاتے ھیں پہلے لو جہاد کا شوشہ چھوڑا گیا۔ پھر بندے ماترم اور یوگا کو لازم کرنے کی کوشش کی گئی ابھی یہ اگ ٹھنڈی نہ ھوئی تھی کہ گھر واپسی پروگرام کے ذریعے گولی اور لالچ سے سادہ لوح مسلمانوں کو مرتد کرنے کی مہم چلی۔ مسلمانوں کے لیے قبرستانوں کا مسئلہ اٹھایا کہ ہندوستان میں ایک مرکزی قبرستان ھو بہار میں الیکشن کی مہم زوروں پر ہے اور یوپی میں اگلے سال انتخابات ھو نے ھیں جہاں مسلمان مضبوط ووٹ بینک رکھتے ھیں انہیں دہشت زدہ کرنے اور ہندووں میں ھندو راشٹر کے جنون کی اگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے بیف کی خون الود سیاست کے ذریعے مسلمانوں پرقیامت سے پہلے قیامت ڈھ رہی ہے۔
Hindu Muslim Riots
اس شرانگیزی کا پہلا نشانہ اخلاق احمد بنے ھیں ملک کی تیس ریاستی حکومتوں میں سے ٢٥ میں گئوکشی کے خلاف مختلف سزائیں ھیں جبکہ پانچ ریاستیں آسام ،گوا،کیرالہ اور مغربی بنگال میں گئو کشی پر کوئی پابندی نہیں ۔بھارت میں کشمیر واحد خطہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکژیت کے باوجود گائے کا گوشت فروخت کرنے ،سٹور کرنے اور کھانے پر دس سال قید بامشقت مع جرمانہ کی سزا ہے۔ کشمیر کے علاوہ گجرات میں سات سال ،دہلی تامل ناڈو میں پانچ سا ل کی سزا ہے تاریخ دانوں کے مطابق 1819 میں سکھوں نے کشمیری پنڈتوں کے ایما پر گئو کشی پر موت کی سزا نافذ کی چنانچہ سرینگر میں مشہور مسلمان تاجر معین الدین کھوسہ اور ان کے داماد کو ذبیحہ کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا اور ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ اسی طرح 1845 میں چھتہ بل کے پیرزادہ صمد اور ان کے خاندان کے سترہ افراد کو گائے کے گوبر اور بید کی لکڑی کے الاؤ میں زندہ جلا دیا گیا۔
کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر گک محمد وانی کی تحقیق کے مطابق 1920ء میں سرینگر کی سینٹرل جیل میں بند 117 افراد میں سے 97گئو کشی کی سزا بھگت رہے تھے ۔آج بھی ہندوستان کی جیلیں مسلمان نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی کا فیصلہ دینے والے جج نے یہ اعتراف جرم کیا ہے کہ افضل بے گناہ ہے مگر ہندووں کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے اسے پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے۔ اس وقت بھگوا دہشت گرد ار ایس ایس ، شیو سینا اور دیگر ہندو تنظیمیں گاؤ کشی کی اس لئے مخالفت کر رہی ہیں کہ اسے مسلمان اور دلت کھاتے ہیں ۔ مسلمان قربانی کرتے ھیں ان کی مخالفت میں ہندو اس قدر اندھے ہیں کہ اپنے مذھب کی تعلیمات کو چھوڑ بیٹھے ہیں ۔بھارت کے ائین کے خالق ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی کتاب The untouchable and becamre untouchableمیں ثابت کیا ہے کہ ہندو مذہب میںگائے کا گوشت کھانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ محقق دیو چندرا نرائن نے اپنی کتاب the myth of holy cow میں وید، رامائن اور مہا بھارت جیسی مذہبی کتابوں کے حوالے سے شواہد سے ثابت کیا ہے کہ ماضی میں ہندو گائے اور بیل کی نہ صرف قربانی کرتے تھے بلکہ اس کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ گائے پر پابندی کا قصہ صرف 500 سال کا ہے۔
گوا جہاں بی جے پی کی سرکار ہے اور وہاں گائے بڑے مزے مزے سے کھائی جاتی ہے۔ بی جے پی کے نام نہاد مسلم رہنما مختار عباس نے ھندو پریشد کو خوش کرنے کے لئے کہا کہ جو گائے کھانا چاہتے ھیں وہ پاکستان چلے جائیں ۔ انھیں کہنا چاہئے تھا کہ جو گائے کھانا چاہتے ھیں وہ کیرالہ یا گوا چلے جائیں جو مستقل کے پاکستان ھی ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد کرن رجیجو جو مودی سرکار میں ھوم منسٹری کے وزیر ھیں نے کہا کہ میں گائے کا گوشت کھاتا ھوں اور ہندوستان میں رہتا ھوں۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے کہا میں بیف کا گوشت کھاتا ھوں۔ کھاتا رہوں گا دیکھتا ھوں مجھے کون روکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گائے ایک جانور ہے یہ انسان کی ماں کیسے ہو سکتی ہے۔ جسٹس کاٹجو نے کہا امریکہ ،یورپ ، افریقہ ، عرب، چین ،اسٹریلیا اورنیوزیلینڈ میں تمام لوگ گائے کا گوشت کھاتے ھیں۔ کیا بھگوا دہشت گرد ان سے بھی لڑیں گے۔ سوامی ناتھ ایس نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ پراچین ہندو گرنتھوں سے یہ ثابت ہے کہ نہ صرف سورن ہندو بلکہ مہان رشی بھی گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ گائے کو ماں کا مقدس مقام دیکر پابندی کی بات کرنے والے گئوپتروں کو صرف ماں کے دودھ ،موتر اور گوبر سے غرض ہے کیونکہ یہ بکتا ہے اور ہند میں سب سے منافع بخش کاروبار ہے اس طرح مسلم دشمنی میں اندھے ہندو اپنی ماں کے سب سے بڑے تاجر بھی ھیں۔ ہر سال 20 لاکھ ٹن گوشت جس کی مالیت تین کھرب روپے ہے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
دنیا میں ہندو کے سوا کوئی ایسابے غیرت کون ہوگا جو اپنی ماں کو بازار میں لا کر بیچ دے لیکن ہندو کی چمڑی تو جائے مگر اس کی دمڑی نہ جانے پائے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب بیف کے کاروبار پر کوئی پابندی نہیں تو پھر کھانے پر کیسی پابندی ؟کشمیر اسمبلی کے ممبر کو ہندو غنڈوں نے اس لئے تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے ریاستی ہائی کورٹ کے غیر فطری فیصلے کو مسترد کرتے ھوئے بیف پارٹی ارینج کی تھی اور جب وہ دہلی پریس کانفرنس کرنے کے لئے گئے تو ان کا منہ حکومت کی اشیر باد سے کالا کیا گیا۔
Jammu and Kashmir Assembly
کشمیریوں کو ڈرانے اور ان کی تحریک کو سبو تاژ کرنے کے لئے گائے پر وہاں پابندی لگائی گئی مگر جس قوم نے اٹھ لاکھ فوجیوں کی سنگینوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کا حوصلہ پا لیا ھو وہ ان سے کیا ڈریں گے کشمیر کی بیٹی اسیہ اندرابی نے اسی روز لال چوک میں گائے کو ذبح کر کے مودی کی ذریت کو بتا دیا کہ کشمیری غلامی کی ہر زنجیر توڑ دیں گے۔ سنگھ پریوار اگر واقعی گائے کا احترام چاہتے ھیں تو پھر گائے کے ذبیحہ اور کھانے کے ساتھ ساتھ یہ قانون بھی منظور ھو کہ اسے بیچنے ،خریدنے اس کا گوشت ایکسپورٹ کرنے کی سزاوہی ہو گی جو سرینگر میں معین الدین کھوسہ اور دادری میں اخلاق احمد کو دی گئی تو مجھے یقین ہے پھانسی کا پہلا پھندا مودی ،بھاگوت اور شیو سینکوں کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے کے دعویدار نے کلکرنی کا منہ کالا کر کے درحقیقت نام نہاد جمہوریت کے منہ سے نقاب الٹا ہے۔ کیا ہندو جمہوریت میں اسی طرح انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے کہ دلتوں کے بچوں کو اسلئے زندہ جلا دیا گیا کہ وہ دلت کے گھر پیدا ہوتے ایسے ملک کو جمہوریت کہتے ہوئے بھی شرم اتی ہے ۔جہاں انسانیت کا احترام کرنے کی بجائے انہیں کتے سے تشبیہ دی جائے ۔ایسے ملک کو تو دنیا کے نقشے پر موجود رہنے کا کوئی حق ہی نہیں پاکستان جہاں دہشت گردی کے تمام سوتے دہلی سے ملتے ہیں۔ دہلی نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کرایا ،یہاں کھیل کے میدانوں کو بھی پراکسی وار میں جھونکنے کی بھارت نے پوری کوشش کی۔ بھارت نے پوری دنیا میں ھمارے خلاف طوفان بد تمیزی مچایا ہمیں دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لئے ایڑیی چوٹی کا زور لگایا۔آج انڈیا نے جو کچھ کیا افسوس اس پر دنیا خاموش ہے۔ اب یہ اعلان کیوں نہیں کیا جاتا کہ بھارت میں کوئی ٹیم کھیلنے نہیں جائے گی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی وسعت ظرف دیکھیں وہ امن کی خاطر ،برصغیر کی خوشحالی کی خاطر مودی کی تقریب میں گئے۔ پاکستان کے کھلاڑی ،اداکار جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ کھیل اور فن کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتی اور بھارت کی محبت میں گھولنے والے جو پاک بھارت سرحدوں کو مٹاکر ایک ھونے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے ،آج اسی بھارت نے ان کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا ہے۔
آج اس ہندوستان میں عیسائی اقلیت پر زندگی دشوار ہے مریم کی مقدس ننوں کی عصمت دری ہو رہی ہے۔ سکھوں کی گرنتھ کو جلا کر پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہندوستان صرف ہندو کا ہے اس ہندو ذہنیت اور روز بروز بڑھتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر برطانوی پارلیمنٹ کے چالیس ارکان بھی پھٹ پڑے انہوں نے حکومت پر زوردیا کہ وہ مودی کا دورہ برطانیہ منسوخ کرے۔
Muslim in India
آج ہندوستان میں جو کچھ ھو رہا ہے اسے دیکھ کر میرا ھی نہیں ہر محب وطن پاکستانی کا یقین اور ایمان اور زیادہ مضبوط ہوا ہے کہ قاہد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کا جو فیصلہ کیا اور پھر قوم کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر یہ آزاد ملک دلایا وہ مبنی بر حقیقت تھا ۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج ہمارا اس سے بھی برا حال ھوتا ،جسے اس وقت بھارت کے مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دلت گزر رہے ہیں۔