ابھی ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ بھارتی شہر جے پور میں انڈین مجاہدین سے مبینہ طور پر تعلق رکھنے والے چار مسلمانوں کو گرفتار کیا گیاتو بھارتی الیکٹرونک، پرنٹ و سوشل میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ٹی وی چینلز پر شر انگیز تبصر ے کئے گئے اور اخبارات میں اس طرح کی تعصب سے بھری سرخیاں جمائی گئیں کہ ”چاروں دہشت گرد مالک مکان کے سامنے پڑھتے تھے قرآن” اور پھر اتنا ہی نہیں نام نہاد تیز طرار بھارتی صحافیوںنے یہا ں تک ڈھونڈ نکالا کہ وہ کیا کھاتے تھے’کیا پیتے تھے’کیاپہنتے تھے’کہاں جاتے تھے اور کس کو مارنے آئے تھے؟ وغیرہ وغیرہ’ غرضیکہ پورے بھارت میں ایک زبردست خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اب لوک سبھا انتخابات کے عین موقع پر بھارت میں ہی کولا پور ضلع کے کاگل گائوں سے پولیس نے ہندو انتہا پسندوں سے تعلق رکھنے والے چار دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے جن کے قبضہ سے بم اور دیگر آتشیں اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
وہ لوک سبھا الیکشن میں دہشت گردی کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک خاص ماحول پیدا کر کے فساد پھیلاناچاہتے تھے لیکن وہی بھارتی میڈیا جو بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریوں پر طوفان بدتمیزی بپا کر دیتا ہے۔مسلمانوں کو بدنام اور دہشت زدہ کرنے کیلئے بغیر کسی تحقیق کے ہر جرم میں انہیں ملوث ٹھہرا دیاجاتا ہے’ ان ہندو دہشت گردوں کی گرفتاری پر کہیں کوئی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی۔الیکٹرونک، پرنٹ، سوشل اور ویب میڈیا پر پراسرار خاموشی چھائی رہی۔
جن چار ہندو دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ان کی شناخت نلیش پاٹل، انی کیت مال، اجنکیا بھوپلے اور انل کھاڈو کے بطور ہوئی۔ اتنے بڑے واقعہ کی خبر ایک ، دو اخبارات نے محض رسمی طور پر شائع کی اور پلہ جھاڑلیا۔ بھارت کے ایک معروف اخبار ”روزنامہ بھاسکر” نے سنگل کالمی خبر لگائی اور اس میں چاروں ملزمان کے نام شائع نہ کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گرد تو صرف وہی ہے جس نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہو، شلوار ٹخنوں سے اوپر اور جس کے سر پر ٹوپی ہو۔یہ لوگ جو پکڑے گئے ہیں یہ تو ویسے ہی پولیس کے نرغے میں آگئے ہیں۔ بھارت میں اب تک دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں ان میں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل، شیو سینا اور ابھینو بھارت جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے دہشت گرد ملوث رہے ہیں۔ مکہ مسجد، مالیگائوں بم دھماکوں، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر واقعات انہی دہشت گرد تنظیموںنے سرانجام دیے۔ ایک طرف بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو دوسری طرف مسلمانوں کو ہی گھروں سے اٹھا کر جیلوںمیں بند کر دیا گیا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلمان تمام بھارتی جیلوںمیں ہندوئوں سے کہیں زیادہ تعداد میں جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں بہت زیادہ جرائم میں ملوث ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی وجہ کے ہندو انتہا پسندوں کے دبائو پر مسلمانوں پر مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔ خاص طور پرپڑھے لکھے نوجوان جو آنے والے کل میں مسلمانوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں انہیں خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔مسلم نوجوانوںکو روزگار میسر ہے اور نہ ہی سرکاری دفاتر میں نوکریاںملتی ہیں۔بھارتی تفتیشی ایجنسیاں اور اے ٹی ایس مسلم نوجوانوں کیلئے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔اگرچہ بھارتی عدالتوں میں مسلم نوجوانوں کے خلاف کسی قسم کے کوئی ثبوت نہ ہونے پر ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانا پڑتی ہے لیکن جب تک یہ مرحلہ آتاہے نوجوانوں کے کچھ کر گزرنے کے دن ہی بیت چکے ہوتے ہیں۔ کئی کئی برسوں تک نوجوانوں کے والدین، ان کی بیویاں اور اہل خانہ ان کی آمد کا انتظار کرتے رہتے ہیںمگر حکومتی اور سیاسی سطح پر ان کی رہائی کیلئے کسی قسم کی کوئی کوششیں نظر نہیں آتیں۔
بھارت میں ان دنوں جب لوک سبھا انتخابا کا معاملہ عروج پر ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی سمیت تمام ہندو انتہا پسند جماعتوں کی پوری کوشش ہے کہ ہر ضلع میں مظفر نگر فسادات جیسا ماحول پیدا کیاجائے تاکہ ہندوئوں کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ نریندر مودی کے دست راست امت شاہ جیسے مسلمانوں کے قاتل ہندو انتہا پسندوں کو بھڑکاتے ہوئے برسرعام مظفر نگر کا مسلمانوں سے بدلہ لینے کیلئے اعلانات کررہے ہیں۔ مسلم امیدوار مودی کے خلاف کوئی بات کر دے تو اسے فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے مگر امیت شاہ اور اس نوع کے دیگر ہندو انتہا پسند لیڈر نہ صرف آزا دپھر رہے ہیںکوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔بھارتی انتخابات کے دوران جگہ جگہ مسلمانوں پر تشددکے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی کانپور میں ہندو انتہا پسندوںنے اپنے مذہبی تہوار رام نومی کے موقع پر نکالاجانے والا جلوس جو ہر سال سید نگر کے طے شدہ روٹ سے نکلتا ہے جان بوجھ کرسند ر نگر سے نکالنے کی کوشش کی اور جب مسلمانوںنے اعتراض کیا تو ان پر حملے شروع کر دیے گئے۔ ہندو انتہا پسندوںنے نہ صرف مسلمانوں کے گھروں ، دوکانوں اور ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا بلکہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر بھی بدترین تشدد کیا گیا۔
Muslims
ایک گیسٹ ہائوس میں تو شادی کی تقریب پر ہلہ بول کر وہاں موجود افراد کی مار پیٹ کی گئی۔ اس دوران جب پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو ہندو انتہا پسندوں نے انہیں بھی نہیں بخشا اور ضلع مجسٹریٹ پر حملہ کر دیا جس پر روشن جیکب نامی مجسٹریٹ بال بال بچیںاور ان کووہاں سے بحفاظت نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق کانپور کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریت اویناش سنگھ نے خود تسلیم کیا کہ جلوس کے طے شدہ روٹ کی خلاف ورزی پر فساد شروع ہوا اور ہندو انتہا پسندوںنے مجسٹریٹ کی جیپ اور آٹھ سے دس دوکانوںکو آگ لگا کر نذرآتش کیا۔ اس وقت بھی مذکورہ علاقہ میں کشیدگی کا ماحول برقرار ہے اورفور سز کی جانب سے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سید نگر ہندو مسلم فسادات پارلیمانی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے اور یہ کہ ایک ہندو انتہا پسند تنظیم کے نام نہاد لیڈر نے سازش کے تحت کچھ آوارہ لڑکوں کی ٹیم تیار کر کے جلوس میں شرپسندی کے مقصد سے شامل کروایا تھاجنہوںنے مسلم کش فساد بھڑکانے کی کوشش کی۔
بھارتی شہر میوات میںبھی ایک دن قبل یہی کھیل کھیلا گیا جب بی جے پی امیدواراندرجیت کے حامی ہندو انتہا پسندوںنے مسلم امیدوار ذاکر حسین کے حمایت کرنے والوں پر بدترین تشدد کیا اور پھر ان کے خلاف ہی ہندوئوں کو مارنے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا۔بعد ازاں جب سی آر پی ایف اور پولیس نے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو مقامی ہندو انتہا پسند لیڈروں نے سیاسی لڑائی کو ہندو مسلم فسادات کے تناظر میں اچھالا جس سے حالات مزید خراب ہو گئے اور فساد پورے علاقہ میں پھیل گیا۔ سخت کشیدگی کی وجہ سے مسلمان بے چارے گھروںمیں محصور ہو کر رہ گئے ، تاجروںنے دوکانیں بند کر لیں اور تاحال وہاں غیر اعلانیہ کرفیو کی کیفیت ہے۔ یہ محض ایک دو مثالیں جو یہاں دی گئی ہیں وگرنہ بھارت کے ہر شہر میں ان دنوں یہی کھیل کھیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
Temple
کہیں ”مندر وہی بنائیں گے” جیسے شر انگیز ترانے گا کر ماحول بگاڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو کہیں مسلمانوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی افواہیں پھیلا کر ان کے قتل عام کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور حکومت کی طرح میڈیا میں بھی ہندو انتہا پسندی والی ایک مخصوص سوچ رکھنے والے عناصر اکثریت میں موجود ہیںجو مسلمانوں کے مسئلہ میں دوہر امعیار اپنائے ہوئے ہیں اور ایک مخصوص لابی کے ہاتھوںمیں کھیل رہے ہیں۔بھارتی مسلم تنظیموں کے قائدین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران جن ہندو دہشت گردوں کو گرفتارکیا گیا ہے ان سے اگر غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقات کی جائیں تو مکہ مسجد، مالیگائوں،اجمیر شریف، جامع مسجد بم دھماکہ کیس اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح مزید نئے چونکا دینے والے انکشافات کھل کر سامنے آئیں گے۔