گجرات (اصل میڈیا ڈیسک) متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بھارت میں جاری مخالفت کے درمیان ریاست گجرات کے وزیر اعٰلی وجئے روپانی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس تو رہنے کے لیے دنیا کے 150 ممالک ہیں لیکن ہندوؤں کے پاس تو صرف ایک ہی ملک بھارت ہے۔
بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعٰلی وجئے روپانی نے متنازعہ قانون کو درست ٹھہراتے ہوئے کہا کہ مسلمان اگر بھارت سے جانا چاہتے ہیں تو وہ دنیا کے 150 اسلامی ملکوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے لیے تو بھارت ہی واحد ملک ہے۔ اس لیے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندوؤں کو اگر بھارت میں شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما وجئے روپانی نے اپنی ریاست میں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
بی جے پی رہنما نے دعوی کیا،”تقسیم کے وقت پاکستان میں بائیس فیصد ہندو تھے۔ لیکن ان پر جو ظلم و زیادتی کی گئی اس کی وجہ سے ان کی تعداد گھٹ کر صرف تین فیصد رہ گئی ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان میں پانچ سو مندر تھے آج صرف بیس باقی رہ گئے ہیں۔ اس لیے ہندو بھارت واپس آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی ہندو آبادی بھی صرف دو فیصد تک سمٹ گئی ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ وجئے روپانی سے پہلے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے شہریت ترمیمی بل کو منظور کرانے کے لیے اسی طرح کے دلائل دیے تھے۔ انہوں نے لوک سبھا میں کہا تھا،” 1947ء میں پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی 23 فیصد تھی اور 2011 ء میں وہ گھٹ کر 3.7 فیصد ہو گئی۔ کہاں گئے یہ لوگ؟ یا تو ان کا مذہب تبدیل ہوا، یا وہ مار ڈالے گئے، یا بھگا دیے گئے، یا بھارت آ گئے۔”
بھارتیہ جنتا پارٹی، اس کی حامی تنظیم آر ایس ایس اور اس کے حامی شہریت ترمیمی قانون کے حق میں اس دعوے کو زور شور سے پیش کرتے ہیں۔ تاہم ماہرین اس دعوے کی صداقت پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آخر اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟
صحافی مہیش راوت نے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ 1947ء میں تقسیم کے وقت پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تعداد سے متعلق کوئی باوثوق اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ جو دعوی کرتے ہیں اس کا کوئی حوالہ آج تک انہوں نے نہیں دیا۔ بی جے پی کے رہنما پاکستان کے سابق رکن پارلیمان فرح ناز اصفہانی کے ایک مضمون کابھی ذکر کرتے ہیں، جسے امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے 2013 ء میں شائع کیا تھا۔ لیکن اس میں بھی اعداد و شمار کے سلسلے میں کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔
مہیش راوت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ایک ساتھ تھے۔ اس مردم شماری کے مطابق غیر مسلموں کی تعداد 14.20ء فیصد تھی۔ اس میں مغربی پاکستان میں غیرمسلموں کی تعداد 3.44 فیصد اور مشرقی پاکستان (آج کے بنگلہ دیش) میں 23.20 فیصد تھی۔1961ء میں پاکستان میں جب مردم شماری ہوئی تو اس وقت مغربی پاکستان میں ان کی تعداد 2.83 فیصد ہو گئی۔
1972ء میں پاکستان میں تیسر ی مردم شماری ہوئی۔ اس وقت مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک کے طور پر وجود میں آ چکا تھا۔ 1972ء کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلموں کی تعداد 3.25 فیصد تھی گویا 1961ء کے مقابلے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
1981ء میں جب اگلی مردم شماری ہوئی تو پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد مزید بڑھ کر 3.30 فیصد ہو گئی تھی۔ پندرہ برس بعد جب 1998ء میں مردم شماری ہوئی تو غیر مسلموں کی تعداد بڑھ کر 3.70 فیصد ہو چکی تھی۔ پاکستان میں تازہ ترین مردم شماری 2017 ء میں ہوئی لیکن مذہبی بنیادوں پر اس کے اعدادوشمار ابھی تک جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
صحافی مہیش راوت کا کہنا ہے کہ اس طرح بی جے پی اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ دعوی درست نہیں نظر آتا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر ہونے والی زیادتی کی وجہ سے ہندوؤں کی تعداد 23 فیصد سے گھٹ کر تین فیصد ہوگئی ہے۔ پاکستان میں پہلی مردم شماری کے بعد سے آج تک ہندوؤں کی تعداد 3.5 فیصدکے آس پاس ہی رہی ہے۔
مہیش راوت کہتے ہیں کہ بی جے پی جب پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 23 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد رہ جانے کی بات کرتی تو وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ یہ نہیں بتاتی کہ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 23 فیصد 1947 ء میں اس وقت تھی جب یہ ملک دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوا تھا۔