تحریر : عقیل احمد خان لودھی ہمارے اہم ترین شہر جو پہلے شور اور آلودگی کی بری طرح زد میں تھے سڑکوں کے کناروں پر جا بجا گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے ناصرف قریبی مکینوں اور راہگیروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ دوران سفر گاڑیوں میں بیٹھے افراد کو مجبوراََ گاڑیوں کے شیشے چڑھانا پڑتے تھے کہ شہروں میں داخل ہوتے ہی گرد وغبار،زہریلے دھوئیں،بدبو کے بھبھوکے مسافروں کی مت مار دیا کرتے تھے۔ بڑے شہروں کراچی ،لاہور، گوجرانوالہ میں صورتحال بدترین تھی تو چھوٹے شہروں کی حالت اپنے حجم کے مطابق ابتر نظر آتی تھی۔ وزیرآباد شہر کی بات کریں تو اب سے چند سال قبل تک اس شہر کا کوئی والی وارث بننے کیلئے تیار نظر نہیں آتا تھا بائی پاس مولانا ظفر علی خاں چوک سے داخل ہوتے ہی شہر وزیرآباد میں دونوں اطراف گندگی اور غلاظت کے ڈھیراور گرد آنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے۔
نظام آبادہائی سکول کے اطراف اور گردونواح کا منظر دیکھنے کیلئے پہلے ناک پر رومال رکھنا پڑتا ہے یا تیز تیز قدم اٹھانا پڑتے تھے کہ تعلیمی اداروں ، بس سٹاپوں کے قریب ہی سارے شہر سے اکٹھا کیا جانے والا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا جن سے اٹھنے والا تعفن سانس لینا دشوار کردیتا، معمولی ہوا چلتے ہی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے غلاظت ہوا کے دوش پر سفر کرتی اور کسی ایک گھر کو بھی نہ بخشتی لوگ آندھیوں کے موسم میں گندگی کے اثرات سے بچنے کیلئے اپنے گھروں میں محبوس ہوجایا کرتے تھے گندگی کے ڈھیروں پر پڑے گندے شاپر ہوا بگولوں کیساتھ سفر کرتے ہوئے آسمان پر سینکڑوں فٹ اوپر تک جایا کرتے جنہیں دیکھنے کیلئے بچے یوں جمع ہوا کرتے تھے
Model of Wazirabad
جیسے روس جیسے ممالک میں سائنسدان راکٹ جیسی ایجادات کو ہوا میں چھوڑنے کیلئے تجرباتی روم میں کھڑے ہو کر سارے مناظر کو دیکھا کرتے ہیں۔ جراثیم اور آلودگی کے اثرات کی وجہ سے ہمارے ہسپتال آباد ہوچکے تھے سرکاری ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کے رش کو دیکھتے ہوئے عطائیوں کو مواقع میسر آئے کہ انہوں نے کونوں کھدروں میں اپنے کلینک کھول لئے جہاں الرجی، ہیضہ اور اسہال جیسی آلودگی کی بیماریوں کا علاج ہونے لگا۔اﷲ بھلا کرے ان لوگوں کا جنہیں مخلوق خدا کو درپیش ان تکالیف سے نجات کی سوجھی اور انہوں نے بیماریوں کی اصل وجوہات کے خاتمہ کیلئے حکومت اور قومی اداروں کی مدد کرتے ہوئے اپنے شہروں کو سنوارنے کا ذمہ سر اٹھایا اور آج ہم سبھی دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سالوں کی نسبت ہمارے شہر خوبصورتی کے مقابلوں میں جتے ہوئے ہیں۔
ناصرف ارباب اقتدار، مقامی ادارے بلکہ مخیرحضرات اور عام افراد اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں کیساتھ ساتھ وزیرآباد جیسے چھوٹے شہروں کی حالت بھی یکسر تبدیل ہوتی جارہی ہے انتظامی ادارے اپنے شہروں کی ساکھ، ماحول دوست پالیسیوں اور معیشت کو زیادہ مستحکم بنانے کی غرض سے سڑک کناروں پر بھرپور توجہ دینے لگے ہیں۔ وہ مقامات جہاں کبھی گندگی کے ڈھیر ہوا کرتے تھے انہیں اب سرسبز تفریحی پارکوں کی شکل دی جا رہی ہے۔ بائی پاس چوک میں داخل ہوتے ہی شہر کی شناختی علامات کٹلری کے نمونے اور باب وزیرآباد جیسی تعمیرات نے شہر کے حسن کوچار چاند لگا دیئے ہیں۔
Wazirabad City
سڑک کے درمیان دو فٹ چوڑی ڈیوائڈر لائن میں سرسبز گھاس خوبصورت پودے اور کھجوروں کے لگنے سے ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے کھجوروں کے پودے جب اپنے جوبن پر پہنچ کر درختوں کی شکل اختیار کریں گے تو مناظر اور بھی دیدہ زیب ہوں گے، نظام آباد کے قریب دہائیوں پرانے گندگی کے ڈھیروں کی جگہ گرین پارکس کی تعمیرات ، جی ٹی روڈ نظام آباد کی مغربی سائیڈ پر موجود قبرستان کی مشرقی دیوار پردیہاتی حویلی کا ماڈل اور اوورہیڈ بریج چوک میں بہترین تعمیرات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ شہر وزیرآباد کے لوگ خوبصورتی کی خواہش دل میں رکھتے ہوئے ایک عرصہ تک مجبوراََ گندگی اور غلاظت کے جبر کو برداشت کرتے رہے۔
شہر کو خوبصورت بنانے میں ٹی ایم اے انتظامیہ بالخصوص ٹائون میونسپل ایڈمنسٹریٹر رائو سہیل اختر کا انتہائی اہم کردار ہے کہ جن کی پہلی اور دوسری بار تعیناتی میں شہر کی بہتری کیلئے نمایاں اقدامات اٹھائے گئے، انہی کی کاوشوں سے مخیر حضرات نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور پھر شہر کے تمام منصوبوں (بشمول باب وزیرآباد)میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اورانہی اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ وزیرآباد شہر میں داخل ہونے اور سیالکوٹ روڈ پر شہری علاقہ سے نکل جانے تک خوبصورت تعمیرات آنے جانے والوں کا ساتھ دیتی ہیںوزیرآباد میں دوسرے شہروں سے آنے جانے والے افراد مختلف مقامات پر رک کر اپنی تصاویریں بناتے اور خوبصورت شہر کی یادوں کو ہمیشہ کیلئے کیمروں میں محفوظ کر تے دکھائی دیتے ہیں،
ماضی کی شان و شوکت ہمیشہ دل کو لبھاتی ہے ۔ تہذیب جب زوال پزیر ہو تو تاریخ کا ایک حصہ بن جاتی ہے اور پھر بڑے بوڑھے ،کتابوں کے اوراق ماضی کی شان و شوکت بیان کرتے نظر آتے ہیں جوپرانے ادوارکا طرہ امتیاز رہی ہو، آج سے بیس سال قبل تک مختلف دیہی علاقوں میں رہٹ کا نظام موجود تھا کنویں موجودتھے جن سے زمینوں کو سیراب کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا کہیں نام ونشان بھی موجود نظر نہیں آتا مگر شہریوں کے تعاون سے ٹی ایم اے انتظامیہ نے اسلام آباد موڑ کے قریب متروک شدہ کنویں کاماڈل نصب کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تمام شہر اور ان کے باسی اپنی تہذیبوں کیساتھ گمنامی میں نہیں چلے جاتے کہ ابھی وہ لوگ دنیا میں موجود ہیں جو فطرت ،ثقافت اور اپنی تہذیب سے محبت رکھتے ہیں اور ایسے تمام لوگ اس معاشرے کا سرمایہ ہیں اور معاشرے کا ہرفرد ان کا قدردان ہے۔