مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیے اس سے قبل پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال مکمل کیے تھے اور اب 25 جولائی 2018 کو الیکشن ہوئے جسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکی ہے اور امید ہے کہ 14 اگست کی سلامی عمران خان بطور وزیراعظم لیں گے ملکی تاریخ میں اتنے صاف ،شفاف اور منصفانہ الیکشن میں پہلے کبھی نہیں دیکھے مگر بری طرح شکست کھانے والی جماعتوں کے سربراہوں جن میں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور انکے ہمنوا شامل ہیں کی طرف سے سب سے زیادہ تنقید فوج پر کی جارہی ہے جبکہ شعبہ صحافت سے منسلک کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو کسی نہ کسی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے انکے مقاصد کی بجا آوری کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔
الیکشن سے قبل انہی جماعتوں کے سوشل میڈیاسیل والوں نے ایک واویلااور اودھم مچایا ہواتھامگران سب اقتدار کے چوروں کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب نتیجہ سامنے آیااور پھر اسے بھی یہ لوگ ماننے سے انکاری ہوگئے یہ کہتے تھے پی ایس پی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگرزیرو سیٹیں،تحریک لبیک کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگر زیرو سیٹیں،حافظ سعید کی پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگرزیرو سیٹیں،جیپ کے پیچھے اسٹیبلمشنٹ؟مگرجیپ فلاپ،جی ڈی اے پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگرجی ڈی اے فلاپ ،بی اے پی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگربی اے پی فلاپ،چودھری نثار کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ؟مگرچودھری نثار ہار گیا، خواجہ آصف اور رانا ثنائاللہ کو اسٹیبلشمنٹ ہرا رہی تھی لیکن وہ جیت گئے اور تو اور علی وزیر اور محسن داؤڑ جیسے بھی جیت گئے یہ کیسی اسٹیبلشمنٹ تھی جو ہر جگہ ناکام رہی؟ پاک فوج نے صرف اتنا کیا کہ اپنی نگرانی میں الیکشن کروا کر اس بار دھاندلی نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے پہلی بارعمران خان جیسا ایک ایسا سولین اقتدار میں آرہا ہے جو آمریت کی گود میں پلنے والوں کو ہضم نہیں ہورہا ایوب، ضیا اور مشرف، تینوں ڈکٹیٹرز گزرے ہیں اور مجموعی طور پر 30 سال تک برسراقتدار رہے۔ لیکن فوج کا سسٹم ایسا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کوئی جنرل تو دور، بریگیڈئیر بھی نہ بن سکا۔ ضیا کے بیٹے نے کچھ عرصہ سیاست میں حصہ لیا لیکن پھر وہ بھی کھڈے لائین لگ گیا۔
سابق آئی ایس آئی چیف اور افغان جہاد کے دور کا سب سے طاقتور جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادے ہمایوں اختر اور ہارون اختر نے ن لیگ اور ق لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کی، آج کل یہ دونوں بھائی بھی کھڈے لائین لگے ہیں۔پرویز مشرف ،راحیل شریف، پرویز کیانی، وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت، اسلم بیگ، یحی خان، جنرل موسی اتنے بڑے بڑے جرنیل لیکن ان کی اولاد فوج کے سسٹم کے آگے بے بس نظر آئی اور اپنے باپ کے نام کا فائدہ نہ اٹھا سکی۔کچھ یہی حال عدلیہ کا بھی ہے۔ اعلی عدالتوں کے جج اپنے بچوں کو وکیل بنوا لیں تو بڑی بات ہے، ملکی تاریخ میں شاید ہی کسی چیف جسٹس کا بیٹا چیف جسٹس بن سکا ہوں۔ اسی طرح بیوروکریسی میں بھی دیکھ لیں، طاقتور ترین سیکریٹریز کی اولاد بزنس یا پرائیویٹ سیکٹر میں جاب کرتی ہیں، شاذ و نادر ہی اپنے باپ کی طرح اعلی سرکاری عہدے پر آسکے۔اس کے برعکس آپ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیکھ لیں۔ ایک دفعہ باپ سیاست میں آگیا تو پھر اس کا بھائی، بیٹا، بیٹی، بیوی، بہن، داماد، بہنوئی۔ اور اس کے بعد اگلی نسل تک سیاست پر اپنا حق سمجھتے ہوئے دھڑلے سے اقتدار میں اپنا حصہ مانگتی ہے۔بھٹو اور شریف خاندان کی مثال آپ کے سامنے ہے چوہدری برادران، لغاری، مزاری، چٹھے، قریشی، پگاڑا، جتوئی، اچکزئی، اسفندیارولی، الغرض ملک کے چاروں صوبوں کے بڑے بڑے سیاستدانوں کو دیکھ لیں، اپنے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے افراد کو بھی سیاست میں اور اقتدار میں شریک رکھتے ہیں۔
ان سیاستدانوں کی اہلیت کیا ہے؟ سوائے اس کے کہ یہ اپنے علاقے کے بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں، بدمعاش اور قاتل ہیں، رسہ گیر اور اٹھائی گیرے ہیں، دھوکے باز اور قبضہ گروپ ہیں اس کے علاوہ ان کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟ کس بنیاد پر یہ اپنے بھائیوں اور بچوں کو اپنے ساتھ سیاست میں لے آتے ہیں اور یوں ملک ان تین درجن خاندانوں کے زیر کنٹرول آجاتا ہے رہی بات عوام کی جس میں ہمارے حکمرانوں نے سوچنے سمجھنے کی حس ہی ختم کردی ہے یہ کارنامے صرف ہماری ‘ جمہوریت ‘ میں ہی ممکن ہیں اور ایسا کرنے والے سیاستدان اپنے آپ کو جمہویرت پسند کہہ کر سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر مورثی سیاستدان اپنا رونا جتنا مرضی رو لیں لیکن کم از کم آرمی، عدلیہ اور سول بیوروکریسی میں اقربا پروری تو نہیں، جرنیل کا بیٹا جرنیل نہیں بنتا، جج کا بیٹا جج نہیں لگتا اور سیکرٹری کا بیٹا ڈی جی نہیں لگتارہی بات موجودہ الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کی اس دوڑ میں وہ لوگ زیادہ شامل ہیں جو اپنی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے شہباز شریف نے تین جگہوں سے الیکشن میں حصہ لیا دو سے بری طرح شکست کھائی اور لاہور میں بڑی مشکل سے جیت سکا اور اب توالیکشن کمیشن آف پاکستان نے سرکاری نتائج بھی جاری کر دیے ہیں جنکاباقاعدہ نوٹیفیکشن 4اگست کو ہوگا اس وقت قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ پہلی بڑی جماعت بن گئی۔
مسلم لیگ ن 64 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی،پاکستان پیپلز پارٹی 43 نشستوں کے تیسری بڑی جبکہ متحدہ مجلس عمل 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ 13 آزاد امیدوار بھی عام انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں، MQM نے 6، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی نے 4، 4 نشستیں حاصل کیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے 3، GDA نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان تحریک انسانیت بھی ایک،ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب میں ن لیگ 129 کے ساتھ پہلے نمبر پر، جبکہ تحریک انصاف 123کے ساتھ دوسرے نمبر پر کامیاب رہیں خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف 66 کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ مجلس عمل 10 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی 76 کی تعداد کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ تحریک انصاف 23 کی تعداد کے ساتھ دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی 15 جبکہ متحدہ مجلس عمل نے نشستیں حاصل کیں۔
پاکستان تحریک انصاف KPK میں پہلی بڑی، پنجاب اور سندھ میں دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جبکہ بلوچستان اسمبلی میں 4 نشستیں حاصل کر سکی۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، KPK میں پانچ، بلوچستان میں ایک جبکہ سندھ میں کوئی نشست حاصل نہ کر سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں سب سے بڑی، پنجاب میں 6، KPK میں 4 اور بلوچستان میں کوئی نشست حاصل نہ کر سکی۔ متحدہ مجلس عمل KPK اور بلوچستان میں دوسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی، سندھ میں ایک جبکہ پنجاب میں کوئی بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 16857035، مسلم لیگ ن نے 12894225، پاکستان پیپلز پارٹی نے 6894296، آزاد امیدواروں نے 6011297 متحدہ مجلس عمل نے 2530452 ، جبکہ تحریک لبیک نے 2191679 کل ووٹ حاصل کیے اور آنے والے چند دنوں میں مرکز سمیت پنجاب میں بننے والی حکومتوں کا خاکہ واضح ہو جائیگا۔