تحریر : چوہدری غلام غوث لاہور کی مشہور اور تاریخی مال روڈ راقم کی روزانہ کی گذرگاہ ہے اس روڈ پر اہم سرکاری ادارے اور اُن کی تاریخی عمارات کا وجود اس روڈ کی تاریخی اہمیت کا احساس دلاتے نظر آتے ہیںان میں سے ایک تاریخی عمارت لاہور جی پی او کی ہے جو اورنج ٹرین کی کھُدائی کی وجہ سے ان دنوں چاروں اطراف سے محاصرے میں ہے اور کئی دنوں سے مسلسل گرد و غبار کے نرغے میں ہے میں اپنے قارئین سے اس عمارت کے تاریخی پسِ منظر اور اس کی روز ِاوّل سے ہماری زندگی میں اہمیت کے حوالے سے آج کا کالم سُپرد قلم کر رہا ہوں۔
جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) لاہور کی دلکش و عالیشان عمارت دو اہم سڑکوں نابھہ روڈ اور مال روڈ (قدیم لارنس روڈ) موجودہ شارع قائد اعظم کے حسین سنگم میں واقع ہے۔ جی پی او کی یہ خوبصورت عمارت 1902 ء میں تعمیر ہوئی۔اُس وقت لاہور جی پی او کی یہ عمارت محکمہ ٹیلی گراف کی زیرِ نگرانی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ لاہور جی پی او کی عمارت ہندو مسلم اور یورپین فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے یہ عالی شان عمارت دو حصّوں میں تقسیم ہے ایک نابھہ روڈ اور دوسرا حصّہ اپر مال روڈ پر ہے عین درمیان میں کلاک ٹاور ہے کلاک ٹاور کے دونوں اطراف کے ہالوں کی پیمائش 238 87 فٹ ہے پاکستان میں ڈاک خانہ کا موجودہ سارا نظام حکومتِ برطانیہ کا رائج شُدہ ہے کسی بھی سلطنت میں ذرائع رسل و رسائل و مواصلات کی اہمیت جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح مسلمہ ہے ان کے نزدیک اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے 1849 ء میں لاہور کو فتح کیا اور اسی سال ہی جنرل پوسٹ آفس کا قیام عمل میں لایا گیا لاہور کا جی پی او پاکستان کا سب سے بڑا پوسٹ آفس ہے اس کی عمارت میں ایک کلاک ٹاور اور چار بُرجیاں ہیں کلاک ٹاور نہایت خوبصورت اور دلنشیں ہے۔
کلاک ٹاور کے اندر اور باہر دونوں طرف چھوٹے پارک ہیں جن میں خوبصورت فوارے ہیں کلاک ٹاور سے دو رویہ سیڑھیاں جو لکڑی سے تیار کی گئی ہیں نہایت دلکش انداز میں اوپر کی منزل تک لے جاتی ہیں۔ ابتداء میں دائیں اور بائیں دو دو لیٹر بکس قیامِ پاکستان سے قبل رکھے گئے تھے ان میں سے ایک ساڑھے چھ فٹ بُلند جس پر سن 1940ء تحریر ہے جبکہ دوسرا ماڈل باکس اس سے بھی بڑا اور قدیم ہے جو 8 فٹ بلند ہے اور اس پر،سَن 1918 ء تحریر ہے جنرل پوسٹ آفس کے کلاک ٹاور کے برآمدے میں ایک بہت بڑی ماڈل بیل (گھنٹی) نصب ہے جس پر سَن 1890 ء تحریر ہے جنرل پوسٹ آفس کی عمارت کے دونوں جانب برآمدے ہیں جن میں جی پی او کی عمارت کی مختلف تصاویر بڑے بڑے فریموں میں نصب ہیں عمارت دو وسیع ہالوں پر مشتمل ہے ایک حصہ ٹاور کلاک کے دائیں اور دوسرا بائیں جانب ہے۔ دونوں حصے تعمیر کے وقت مختلف کمروں میں تقسیم تھے کلاک ٹاور کی دائیں طرف مال روڈ کی جانب تمام عمارت کو ایک ہال کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ اس وسیع ہال کے باہر دائیں جانب خوبصورت لیٹر بکس نصب ہیں جن میں سے ایک صرف شہر لاہور کی ڈاک کے لیے دو اندرونِ ملک ڈاک کے لیے اور ایک بیرونِ ملک ڈاک کے لیے مخصوص ہے۔ بڑے ہال اور برآمدوں کا فرش ازسرِ نو سنگِ مرمر اور سنگِ سیاہ کا لگایا گیا ہے ۔ ہال کے اندرونی حصے دو کاؤنٹروں میں تقسیم ہیں عوام کی سہولت کے لیے دائیں اور بائیں دونوں کاؤنٹروں کو 26 ، چھبیس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
جنرل پوسٹ آفس کے وسیع و عریض عالیشان ہال کے بائیں حصّہ میں کلاک ٹاور کی طرف شیشے کے تین شو کیس نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پہلے شوکیس میں انگریز دور کے گیارہ بڑے اور دو چھوٹے تالے ہیں تمام تالوں کی چابیاں بھی ان کے ساتھ ہیں دوسرے شو کیس میں انگریز دور کے مختلف رنگوں کے ڈاک کے چھوٹے بڑے مضبوط تھیلے رکھے گئے ہیں ہر تھیلے پر اس کا سائز اور قیمت کے کارڈ آویزاں ہیں ان تھیلوں کی کل تعداد 14 ہے اور ان کے مُنہ پر لوہے کے کڑے ہیں ان میں سے ایک تھیلے کی قیمت کم از کم ایک روپیہ 37 پیسے ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ قیمت 33 روپے 37 پیسے ہے۔ تیسرے شو کیس میں انگریز دور کے 26 تمغے محکمہ ڈاک خانہ سے متعلق رکھے گئے ہیں۔ ہال کے عقب میں محتلف فاصلوں پر چار الماریاں بھی نمائش کے لیے رکھی ہیں پہلی دو الماریوں کو چار چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ باقی دو کو تین تین حصوںمیں تقسیم کیا گیا ہے پہلی الماری کے پہلے حصے میں دو بڑے وال کلاک جن کی سوئیاں ، خوبصورت تلوار ، تین بڑے اور ایک چھوٹا خنجر ، ایک لیمپ اور تانبے کی تھالی ہے تیسرے حصے میں روشنائی کی بوتلیں پتھرکی مہریں ،دو میزان اور باٹ رکھے ہیں دوسری الماری کے پہلے حصہ میں چمڑے کے ایسے بیگ رکھے ہیں جو کمر پر باندھے جا سکتے ہیں۔
دوسرے حصّہ میں لیٹر سٹینڈ، لکڑی کا لیٹر سٹیمپ بکس، دو بڑے کلاک، تین ٹائم پیس رکھے گئے ہیں۔ تیسرے حصّہ میں تانبے کا خوبصورت لیمپ اور لوہے کے دو بڑے ‘دیا’ سٹینڈ ہیں چوتھے حصّے میں سات مختلف قسم کے ترازو رکھے گئے ہیں جبکہ آخری حصّہ میں آدھی جلی موم بتیاں، لاکھ ،بُرش، لیٹر بکس ایک 1960 اور دوسرا 1964 ء کا ہے ان چاروں الماریوں اور تین شو کیسوں میں رکھی گئی تمام اشیاء میں سے صرف دو لیٹر بکس قیام پاکستان کے بعد کے ہیں۔ ایک الماری کے چوتھے حصّہ میں پچاس باٹ رکھے گئے ہیں۔
جن میں سے دس باٹ بڑے اور 40 چھوٹے ہیں ہال کے دائیں حصّہ میں یادگاری ٹکٹ کاؤنٹر ہے ۔ جی پی او کی عمارت کا دوسرا حصّہ کلاک ٹاور کے بائیں جانب واقع ہے جسے اب وسیع ہال میں تبدیل کر دیا گیا ہے پہلے یہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ڈلیوری ڈیپارٹمنٹ تھا۔ 2004 ء میں اس ہال کی مرمت کر کے یہاں پوسٹ آفس سیونگ بنک ادائیگی پینشن اور یوٹیلٹی بلز سمیت صوبائی محصولات کے شعبوں کو تین حصّوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس وقت ہال نمبر2 کے تینوں حصّوں میں تیرہ شعبہ جات ہیں جن میں وصول موٹر وہیکل ٹیکس، تجدید ڈرائیونگ لائسنس ، تجدید اسلحہ لائسنس، وصولی بل بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلز، ادائیگی ملٹری پنشن ، پوسٹل پنشن، پی ٹی سی ایل پنشن، بیت المال پنشن، پوسٹ آفس سیونگ بنک، اجراء پوسٹل ڈرافٹ و منی آرڈر کے شعبہ جات شامل ہیں۔ میل برانچ کو اب جی پی او میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ جس میں محکمہ ڈاک کے متعلقہ قدیم نوادرات رکھے گئے ہیں جو اس کے ابتدائی زمانہ کی یادگار ہیں جس کا سفر بیل گاڑیوں اور گھوڑوں سے شروع ہوا تھا آج ریل گاڑی اور ہوائی جہاز اس پیغام رسانی کے شعبے کو ترقی کی معراج پر لے گئے ہیں انڈین گانا ہوا کرتا تھا اور” لوکیں چٹھیاں پاؤنیاں بھُل گئے جدوں دا ٹیلی فون آ گیا” اب جدید ترین موبائلز اور آئی ٹی کے شعبہ نے خطوط لکھنے کے عمل کو انتہائی قلیل کر دیا ہے و ہ جی پی او جس کا لوگو(نشان) خدمت، دیانت، امانت ہوا کرتا تھا حکومتی اعلان کے مطابق 31 مارچ سے اس کا محاصرہ ختم کر دیا جائے گا اور مال روڈ کھول دیا جائے گا۔