گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم لاہور ہائی کورٹ بار آئے جہاں صدر بار عابد ساقی، سینئر قانون دان عاصمہ جہانگیر اور دیگر وکلا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ان سے کوئی ایسی غلطی نہیں ہوئی جس کا پچھتاوا ہو، کسی کو اعتراض ہے تو الیکشن ٹربیونل میں جائے اور الیکشن کالعدم قرار دلوا لے جو چار مہینے میں فیصلہ دے دیں گے۔ میں نے بر وقت منصفانہ اور شفاف انتخابات کرا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، پہلی مرتبہ ایک حکومت جمہوری انداز سے گئی اور دوسری آئی۔ الیکشن کمیشن میں فرشتے نہیں تاہم کوئی بڑی غلطی نہیں ہوئی، پہلی مرتبہ ساٹھ فیصد سے زیادہ ٹرن آوٹ ہوا، خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا اگر کسی حلقے میں الیکشن چوری ہوئے تو الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا جائے۔ الیکشن کرانے کی ذمہ داری سے مطمئن ہوں کسی قسم کا بوجھ نہیں۔
فیملی اور دوستوں نے بھی مجھے سپورٹ کیا۔ عوام تقویت چاہتے ہیں اور وہ الیکشن کے سوا ممکن نہیں۔ مشکلات کے باوجود عام انتخابات بروقت اور شفاف ہوئے، ملک اور آئندہ نسلوں کا مستقبل جمہوریت ہے اور ہم نے شفاف انتخابات کروا کر جمہوریت کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان میں روایت رہی ہے ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگاتا ہے اور جیتنے والا کہتا ہے سب ٹھیک ہے۔ دوسری جانب یہ بات تو ہر پاکستانی جاتا ہے کہ اس وقت وطن عزیز جس بری طرح دہشت گردی کے عفریت کے جبڑوں میں پھنس کر اپنی بقاء کیلئے فکرمند ہے، اسے اس عفریت سے نجات دلا کر ہی زندگی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ دہشت گردوں نے حکومتی، ریاستی اتھارٹی کو مسلسل چیلنج کرتے اور بالخصوص کوئٹہ، کراچی اور خیبر پی کے میں اپنی دہشت و وحشت کی دھاک بٹھاتے ہوئے ملک پر اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
اگر اس کا فوری سدباب نہ کیا گیا اور دہشت گردوں کو ہمارے سکیورٹی لیپس سے فائدہ اٹھا کر اپنے اہداف کی تکمیل کا موقع ملتا رہا تو یقیناً وہ اپنے ایجنڈے کی مطابق سب کچھ کر گزریں گے۔ گزشتہ دو ہفتے کے دوران دہشت گردوں کی پھیلائی بربریت سے جہاں بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں, وہیں شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید اجاگر ہوا ہے۔ نتیجتاً اندرونی بیرونی سرمایہ کاری بھی غیر یقینی کی فضا کا شکار ہے اور لوگوں کا کاروبار حیات و روزگار ٹھپ ہونے سے بھی انہیں جان کے لالے پڑے ہیں۔ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی اور بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں گھناونی دہشت گردی کی وارداتوں، مردان میں نماز جنازہ کے دوران خودکش دھماکے اور کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے بعد گزشتہ روز پشاور میں فورسز کے قافلے پر فائرنگ اور راکٹ حملے سے بادی النظر میں دہشت گرد ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔
Terrorists
انکے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں، یقیناً ہماری سکیورٹی ایجنسیز کو اس کا بخوبی علم ہے، اسکے باوجود دہشت گردوں کو اپنے اہداف کی تکمیل کا موقع مل رہا ہے تو سکیورٹی کے معاملات میں کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ موجود ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس اور حفاظت سے متعلق خدشات والے افراد کے سوا رینجرز اور ایف سی کو اہم شخصیات کی سکیورٹی سے ہٹانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ قوم غیر محفوظ ہے، فورسز کروڑ پتی افراد کی سکیورٹی میں لگی ہیں، رینجرز، ایف سی اور سول آرمڈ فورسز کو نجی چوکیدار بنا کر فورسز کی طاقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں، تمام سکیورٹی ایجنسیز اداروں کو اپنی اصل جگہ کام پر لگایا جائے گا، اسلام آباد میں کسی وزیر کو سکیورٹی نہیں دی جائے گی۔
کسی بھی صوبے میں تعینات پیرا ملٹری فورسز متعلقہ صوبائی حکومتوں کو جوابدہ ہوں گی، سپریم کورٹ کے فیصلے اور ہدایات کی روشنی میں کام کرینگے، وزارت داخلہ کے ماتحت کوئی شخص، کوئی ڈیپارٹمنٹ، کوئی ادارہ کسی غیر ملکی سے رابطہ نہیں کر سکتا نہ کوئی غیر ملکی ان کے دفتر میں آسکتا ہے، آئندہ کسی بھی دہشت گردانہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیگی، اسلام آباد میں گداگروں، جرائم پیشہ افراد اور غیر معیاری اشیا فروخت کر نے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں جائیگی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسلحہ پر پابندی ہو گی، اسلحہ کیلئے نئے لائسنس جاری نہیں کئے جائینگے، غیر رجسٹرڈ گاڑیوں اور کم عمر ڈرائیوروں اور ون ویلنگ میں ملوث افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔
Khawaja Mohammad Asif
گولڑہ ٹول پلازہ جون میں ختم کر دیا جائیگا، کوئی کسی کی مرضی کا تھانیدار نہیں لگ سکے گا، غیر قانونی کام کر نے والوں کے خلاف کارروائی کرینگے، آئندہ دو ہفتوں میں نئی سکیورٹی پالیسی تشکیل دے جائیگی، نئی سکیورٹی پالیسی کا اعلان جلد کر دیا جائیگا۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف انرجی شعبے کی اصلاحات کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کر ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ 14 سال میں سنگین جرائم کئے گئے رینٹل پاور کا منصوبہ اربوں روپے رشوت کے حصول کیلئے شروع کیا گیا جس کی وجہ سے مجھے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور عدالت سے ہمیں انصاف ملا آج کل ہمیں مشورے دینے کیلئے بہت لوگ آرہے ہیں۔ کچھ لوگ اچھے اور کچھ چالو قسم کے مشورے دیتے ہیں۔
وزیراعظم آئندہ پندرہ دنوں تک انرجی پالیسی کا اعلان کرینگے۔ انرجی کے شعبے میں سالانہ 207 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے جبکہ بجلی کی کمپنیوں میں 2.2 فیصد نقصانات کے اعداد و شمار درست نہیں نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ شکایات کیلئے 118 کی ہیلپ لائن پر عوام کو رسپانس نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی فون اٹھاتا ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ کے ممبران کے فیڈرز میں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی۔ اب صرف غریب کو سبسڈی دی جائے گی۔ مارکیٹ رات آٹھ بجے بند کرنے کی پالیسی جلد لائیں گے۔ کھاد بنانے والی فیکٹرویوں کو کم نرخوں پر گیس دی جارہی ہے اس کا ریٹ بڑھایا جائے گا۔
حکومت نے توانائی بحران کے حل کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کر لی ہے، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے دو سے تین سال کا عرصہ درکار ہے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گزشتہ 5 سال میں 1 ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے آنے والا وقت پہلے وقت سے بہتر ہو گا۔ لوڈ شیڈنگ ہمارے وجود اور بقاء کا سوال بن چکی ہے۔ مستقبل میں لوڈ شیڈنگ سے زیادہ پانی کی قلت کا سنگین خطرہ ہے، کچھ ڈیم سیاسی اور کچھ مفادات کی نذر ہو گئے۔ مبصرین کے مطابق یہ جو باتیں پہلی بار منظر عام پر آئی ہیں یہ ایک تاریخی سچ ہے اور جو حکومتی فیصلے ہوئے ہیں۔ ان پرعمل درآمد بھی ہو گا ۔لیکن ان فیصلوں سے بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے۔