12 ستمبر 1965ء کی تاریخی صبح تھی۔ میجرعزیز بھٹی نے فجرکی نماز ادا کی۔ شیو بنائی،بالوں میں کنگھی کی تیارہوئے توایک جوان چائے لے آیا۔چائے سے فارغ ہوئے تووردی لانے کاحکم دیاتوپتہ چلاکہ ان کی وردی تیارنہیںاورجوان کسی اورکی تیاروردی لے آیاہے۔ میجرعزیز بھٹی نے وہ وردی لینے سے انکارکردیااوراس موقع پرایک تاریخی فقرہ کہا۔”جوان وردی اورکفن اپناہی اچھالگتاہے۔
اس تاریخی فقرے سے میجرعزیزبھٹی کی وطن سے محبت اوروطنِ عزیزکی طرف سے دی گئی امانت وردی سے محبت ظاہرہوتی ہے۔یہ آج کے بے ایمانوں،بددیانتوں،ضمیرفروشوںکیلئے ایک بہترین پیغام ہے جوملک کی طرف سے دئیے گئے عہدوںکاناجائزفائدہ اٹھاتے ہیںجن کی پوری زندگی کرپشن سے بھری پڑی ہے۔جوملک کی طرف سے دی گئی امانتوںیعنی کہ عہدوںمیںخیانت کرتے ہیں۔جوکسی کرسی پربیٹھنے سے پہلے توایمانداری کے حلف لیتے ہیںمگربعدمیںایمانداری ان سے کوسوںدورہوجاتی ہے۔وطن سے محبت کاحق اس وقت ہی اداہوتاہے جب انسان وطن کی طرف سے دئیے گئے کسی عہدے کا ایمانداری سے استعمال کرے۔وہ یہ ناسمجھے کہ وہ جس عہدے پرفائزہے وہ اس کے باپ داداکی جائدادہے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ وطنِ عزیزکی طرف سے اس پراعتمادکیاگیاہے۔
یہ ملک کی طرف سے اسے امانت سونپی گئی ہے ۔جسے وہ ایمانداری اورنیک نیتی سے نبھانے کی کوشش کرے۔جس میں خیانت کرنے کی بجائے دیانتداری سے چار چاندلگادے۔وہ جہاںبھی جائے اپنی نیک نیتی اورخلوصِ نیت سے اداروںکی ترقی کاباعث بنے ۔اگرایک ایک فرداپنے آپ کودرست کرنے پرلگ جائے توقطرہ قطرہ دریابن جاتاہے اورآہستہ آہستہ پاکستان کاہرشہری فرض شناس بن جائے گا۔ میںدوبارہ اپنے اصل ٹاپک کی طرف آتاہوں۔میجرعزیزبھٹی کی پلاٹون بی ۔آر۔بی کے کنارے مورچہ زن تھی۔آپ مورچہ میںبیٹھ کراپنے تویچی کوٹارگٹ پوائنٹ بتارہے تھے۔مگرگردوغبارکی وجہ سے صاف دکھائی نہیںدے رہاتھالہذاآپ مورچہ سے باہرنکل آئے۔
Major Raja Aziz Bhatti Grave
ساتھی جوان نے بہت کہا،سر!باہربہت خطرہ ہے۔دشمن بھاری تعداد میں ہے اورٹینک آگ اُگل رہے ہیںمگرمیجرراجہ عزیزبھٹی نے کہاکہ اگرمیری جان دشمن کوشکست دیتے ہوئے ملک پرقربان ہوجائے توکوئی غم نہیں۔اسی اثناء میںٹارگٹ بتاتے ہوئے دشمن کے ٹینک کاایک گولہ میجرعزیزبھٹی کے شانے پرلگا۔میجرصاحب اُچھلے اور لڑکھڑا کر گرپڑے اورپھرپاکستان کایہ بہادر،جراء ت مند، دلیر اور دشمن کی ناک میںدم کرنے والاسپاہی اللہ کی راہ میںاپنے فرض کی ادئیگی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔
سچ، اخلاق، اخلاص، ایمانداری اور وطن سے محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں ہیں۔ میجر عزیز بھٹی کی زندگی سے ہمیں یہ پتہ چلتاہے جوانسان ان تمام طاقتوںسے مالامال ہوتاہے دنیاکی کوئی بھی طاقت اسے شکست نہیںدے سکتی۔حقیقت تویہ ہے کہ یہ تمام خصلتیںانسان کوناصرف دنیامیںعزت وتوقیرعطاکرتی ہیںبلکہ آخرت میںبھی کامیابی کاذریعہ بنتی ہیں۔ان ساری خصلتوںکے راستے میںکچھ دشواریوں کا آنا یقینی ہے اوران کے حصول میںبسااوقات بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔
لیکن انسان کوصرف یہ سوچ کرہمت نہیںہارنی چاہئے کہ ہرگلاب کو کانٹوں سے گھیراگیاہے اوروہ کانٹوںمیںرہ کربھی خوشبودیتاہے۔جب یہ سوچ دل میںآجائے گی تو اسے ایسی عقیدت اورمحبت ملے گی جورہتی دنیاتک زندہ رہے گی۔کیونکہ انسان کے بہترکردارکوکبھی زوال نہیںآتااورانسان کاکرداراس کی کھال بھی ہوتاہے اورڈھال بھی۔ میجرعزیزبھٹی اس دنیاسے توچلے گئے مگروہ اپنے کردار،جراء ت مندی اوربہادری کی وجہ سے لوگوںکے دلوںمیںآج تک زندہ ہیں۔انہوںنے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کیااور انصاف کایہ جذبہ اُن کے اندراس لئے آیاکہ وہ وطن کے ساتھ بے لوث محبت کرتے تھے ۔وطن کی کیلئے اپناتن من دھن نچھاورکرناچاہتے تھے
وہ موت سے ڈرنے کی بجائے شہادت کوچومناچاہتے تھے۔ شہادت کاجذبہ اُن کے ارادوںکومضبوط کرتاتھاان کوقوت عطا کرتا تھا اور مردانگی کوتقویت بخشتاتھاجس وجہ سے وہ دشمن کے سامنے ڈٹ گئے اورمردانہ وارلڑتے ہوئے شہیدہوگئے۔