یہ مولانا سید ابوالحن علی ندوی، عرف ”علی میاں” کی تصنیف کردہ تین جلدیں ہیں، جس میں ہمارے اسلاف کی تاریخ، دعوت اور عزیمت کے واقعات درج ہیں۔ ایک مدت کیا، بلکہ پچاس سال بیت گئے ہم نے ان کتب کا کا مطالعہ کیا تھا۔ پھر یہ ہماری ذاتی لائبر یری کی دوسری کتابوں کے ساتھ، ملازمت کی وجہ شہروں شہر کا سفر کرتے کراتے بلا آخر اسلام آباد پہنچ گئیں۔اب افادہ عام کے لیے ان کو لائبر یری سے نکال کر مطالعہ اور تبصرہ تحریر کرنے کا موقعہ ملا، جو قارئین کی نظر ہے۔
ان کتب میں عالم اسلام کی اصلاحی و تجدیدی کوششوں کا تاریخی جائزہ، نامور مصلحین اور ممتاز اصحاب دعوت و عزیمت کا مفصل تعارف، ان کی علمی کارناموں کی روداد اور ان کے اثرات و نتائج کے تذکرہ سے لبریز ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی عرف علی میاں کی کئی تصانیف ہیں۔ علی میاں اسلامی تاریخ کے ماہر مصنف ہیں۔ اسلام اور تاریخ اسلام کی خدمت کے اعتراف میں سعودی عرب سے ، شاہ سعود بین الاقوامی انعام سے بھی نوازے گئے ہیں۔ لکھنو بھارت سے تعلق رکھتے ہے۔انکی دوسری کتب میں بھی اسلامی تاریخ، اصلاح و انقلاب کی کوششوں کے تسلسل کو دیکھایا گیا ہے۔ ممتاز شخصیتوں اور تحریکوں کی بیان کیا گیا ہے۔ان شخصیتوں نے اپنے اپنے وقت میںاپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیائ،تجدین اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا۔ان کی مجموعی کوششوں سے اسلام زندہ اور محفوط شکل میں اس وقت بھی موجود ہے۔
پہلی جلد میں لکھتے ہیں۔پہلی صدی ہجری میں عمر بن عبدالعزیز کو اللہ تعالیٰ نے تجدید انقلاب کے لیے چنا۔ خلافت راشدہ کے بعد بنی امیہ کی ملوکیت جو اسلامی سے زیادہ عربی تھی۔ قدیم جاہلی ر جحانات جو مدینہ کی اسلامی ریاست اور خلفائے راشدین کے دور میں ختم ہوئے گئے تھے ۔ اس دور میںنیم تربیت مسلمانوں اور نئی عربی نسل میں پھر سے اُبھر آئے۔قرآن اورسنت کا نظام باقی نہیں رہا۔ عربی اور قبائلی سیاست بن گیا۔خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔بنی امیہ بادشاہ بن گئے۔ سیاست بادشاہوں اورواعظ و نصیحت اور قضاء کا کام علما نے اختیار کر لیا۔عمر بن عبدلعزیز نے اسے اقتدار میں آتے ہی یک سر بدل دیا۔عام مسلمانوں سے قبضہ کی گئی ساری جائدادیں اصلی مالکوں کولو ٹا دیں۔ اس کام کے خلاف کوئی نصیحت کرتا تو قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے:۔” اگر میں نے اپنے ر ب کی نافرمانی کی تو مجھے ایک بڑے دن کا عذاب کا خطرہ ہے۔(الانعام۔٢) پہلی دفعہ ابوبکر بن حزم کو تدوین حدیث پر لگایا۔ا ن مختصر زمانہ اقتدار میںکے زمانے میں سب مسلمان غنی ہوگئے۔ زکوٰة لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔عمر بن عبدالعزیز سے پہلے ٹاک آف دی ٹائون میں محلوں، جائیدادوں،عورتوں اور عمدہ کھانوں کی باتیں اور اب نیکیوں کی باتیں ہونی لگیں تھیں۔مسلمان ان کو چھٹا خلیفہ راشد مانتے ہیں۔
لکھتے ہیں دوسری صدی ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حکومتی دھارا اسی طرف بہنے لگا جیسا پہلے بیتا تھا۔ دولت کی فراوانی نے اسلامی معاشرے میں نفاق اور مترفین کے اخلاق پیدا ہونے لگے۔مادہ پرستی کا دور شروع ہوا۔س دور میں اللہ تعالیٰ نے حسن بصری کو پیدا کیا۔ انہوں نے ام سلمہ کے گھر پرورش پائی تھی۔ صاحب علم فصیح تھے۔ لوگ ان سے قرآن حدیث، تفسیر، فقہ ۔مقدمات اور قضا کے قواعد سیکھتے تھے۔چونکہ حسن بصری نے صحابہ کے دور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا طرزعمل نبیوں کے کلام اور صحابی کے طرز عمل سے ملتا جلتا تھا۔حق گو اور بے باک تھے۔ حسن بصری کی اصلاحی کوششوں کیوجہ سے انقلاب ِحکومت کی جد و جہد کی گئی۔ خاندان بنوت ۖکے کئی افراد نے انقلاب کی کوششیں کی۔حضرت حسین کے بعد ان کے پوتے زید بن علی بن حسین نے ہشام ابن عبدا لملک کے مقابلہ میں علم جہاد بندکیا اور ١٢٢ھ میں شہید ہوئے۔امام ابو حنیفہ نے ان کی خدمت میں دس ہزار درم بھیجے ۔ اس کے بعد بنی حسن میں سے حضرت محمد ذو النفس الزکیہ بن عبداللہ ابن الحسن المثنی بن سید نا حسن بن علی نے مدینہ میںاور ان کے مشورے سے ان کے بھائی ابراھیم بن عبداللہ نے کوفہ میں منصور کے خلاف علم جہاد بند کیا۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے ان کی تائید کی۔امام ابو حنیفہ نے منصور کے فوجی افسر حسن بن قحطبہ کو ابراھیم کا مقابلہ کرنے سے باز رکھا۔اس جہاد سے غلط اقتدار کے خلاف اعلان حق کی ایک نظیر قائم ہوئی۔
لکھتے ہیں مامون نے خلق قرآن کے مسئلے پر اپنی پوری توجہ مر کوز کر دی۔ ما مون نے والی بغداد کو مختلف وقتوں میں تین خط لکھے۔ جو خلق قرآن کے قائل نہیں ان کو عہدوں سے ہٹادیا جائے۔ کچھ کوقتل بھی کروا دیا۔ کچھ نے رجوع کر لیا۔ موت کے بعد وصیت کی کہ اسے عقیدے پر قائم رہاجائے۔معتصم کے زمانے میںامام احمد بن حنبل کو رقہ سے بغدادلایا گیا۔چار چار بیڑیاں ان کے پائوں میں پڑی تھیں۔ معتصم نے امام احمد بن حنبل کو اس مسئلہ پر ٢٨ کوڑے لگوائے۔ تین دن تک مناظرہ ہوتا رہا اور کوڑے پڑتے رہے ۔ امام کہتا” میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسولۖ کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اسکو مان لوں” بلا آخر ظلم ہار گیا اور حق جیت گیا۔ امام کی بے نظیر ثابت قدمی اور اور استقامت سے یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
`عباسی دور میںفتنہ اعتزال کو امام ابوالحسن اشعری جو مشہور صحابی حضرت ابو موسی اشعری کی اولاد میں سے تھے نے ختم کیا۔ پانچویں صدی کے عین وسط میں یونانی فلسفہ اور باطنیت کو امام غزالی نے مات دی۔ زندگی ومعاشرت کا اسلامی و اخلاقی جائزہ اور ان کی تنقید و اصلاح کی۔ ٤٨٨ھ میں حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی بغداد تشریف لائے ۔ آپ کا نسب دس واسطوں سے سید امام حسن پر منتہی ہوتا ہے۔عبدالقادر جیلانی نے تصوف کو بدعات سے پاک کرنے اور کتاب سنت کے اس کا ماخذ بنانے کی کوشش میں حضرت شیخ کا تجدیدی حصہ ہے۔ ان کی کتاب ”عوارف المعارف” میں ان کے کام کا اندازہ ہوتا ہے۔لکھتے ہیں عبدالرحمان ابن جوزی دعوت و اصلاح کا ایک دوسرا نمونہ ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے یکتائے روزگارمفسر، محدث،مورخ، ناقد، مصنف اور خطیب تھے۔ان کا بڑا کارنامہ ان کے انقلاب انگیز اورموثر مجالس درس ہیں۔ ان مجلس میں خلفائ، سلاطین، وزراء اور اکابرعلماء شریک ہوتے تھے۔ ایک ایک لاکھ آدمی ایک ایک وعظ میں شمار کئے گئے ۔
نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے دور کے متعلق لکھتے ہیں۔ ایک طرف مرکز اسلام میں پوری قوت سے تصنیفی و تعلیمی کام ہو رہا تھا تو دوسری طرف صلیبی حملوں کی زد میں تھا۔ راہب پطرس نے مسیح دنیا میں آتش نوائیاں سے آگ لگا دی تھی۔٤٩٢ھ میں صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کر لیا۔صلیبیوں نے ظلم و سفاکیت کی انتہا کر دی۔نورالدین زنگی نے فلسطین کے علاقے صلیبیوں سے چھین لیے ۔ پھر اس کے سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا۔لکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین کی کوششوں سے جا بجا دینی مدارس کے قیام نیز شیعی اثرات کے اضمحلال اور سنی سلاطین کے اثر سے علمی و عملی زندگی میں تازگی پیدا ہوئی۔ ساتویں صدی ہجری میں سب سے زیادہ با ا عظمت شخصیت شیخ الاسلام عزالدین ابن عبد السلام کی ہے ،جو اپنے علم و تقویٰ اور حق گوئی و بیباکی میں نادرہ روزگار اور قران اولیٰ کی یاد گار تھے۔
لکھتے ہیں ساتویں صدی ہجری میں خوازم شاہ نے تاتاریوں سے شکست کھائی۔ تاتاری سارے عالم اسلام پر قبضہ کر لیا۔ دہشت کی حالت یہ تھی کہ ایک تاتاری ایک گلی میں گھسا تو سو مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔ کسی تاتاری نے ایک مسلمان سے کہ تم اس پتھر پر سر رکھ دو میں خنجر لاتا ہوں۔ مسلمان سہما پڑا رہا اور بھاگنے کی ہمت تک نہیں کی۔ تاتاری شہر سے خنجر لایا اور اسے ذبح کر دیا۔پھر اللہ کا کرنا کہ ایک سال میں ساری تاتاری قوم مسلمان ہو گئی۔اس پر شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا کہ :۔
ہے عیاں شورش تاتار کے افسانے سے پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
لکھتے ہیں کہ ساتویں صدی ہجری میں سارا اسلام علمِ کلام کے مسائل و مباحث سے گونج رہا تھا۔اس کے توڑ کے لیے اللہ تعالی نے مولانا جلال الدین رومی کو پیدا کیا۔ ان کی مثنوی علم کلام نے بے اعتدالیوں اور عقل کی ہوس پرستی کے خلاف ایک صدائے احتجاج بلکہ اعلان جنگ کر دیا۔ ایک ایسے علم کلام کی بنیاد رکھی کہ جس کی عالم اسلام کو سخت ضرورت تھی۔ رومی کو علامہ اقبال استاد مانتے ہیں۔ صاحبو! یہ اوپر درج تین میں سے پہلی جلد میں بیان کی گئی ہمارے اسلاف کے کارنامے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کا باغ ہرا بھرا ہے، اور ان شاء اللہ ہمیشہ ہرا بھرا رہے گا۔۔ آیندہ کسی وقت دوسری اور تیسری جلد کی داستان بیان کریں گے۔ ان شا اللہ۔