تاریخ تصوف کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہر دور میں طالبان حق راہ ِ حق اور قرب الٰہی کے لیے فنا فی الشیخ کی منزل سے ہو کر خالقِ حقیقی کے دربار تک پہنچتے ہیں ‘ تصوف کا ورق ورق ایسے والہانہ واقعات سے بھرا پڑاہے جب مرید نے گھر بار بیوی بچے جائیداد شہر سب کچھ مرشد کے حکم پر راہ خدا میں لٹا دیا پھر وہ غلاموں کی طرح مرشد کے حضور کھڑا رہا بلکہ مرشد سے محبت کا یہ عالم کہ مرشد کو ہی خدا رسول کے بعد اول آخر جانا جو مرشد کے سامنے زیادہ جھکا سر تسلیم خم کیا وہ اتنا ہی با مراد ہوا لیکن ایسے بہت کم واقعات ہیں جب مرید کے لیے مرشد بے قرار اور عشق ِ میں مبتلا ہوا یا ایسا مرید کہ ہربزرگ کی یہ خواہش کہ یہ مرید میری مریدی میں آجائے ایسا ہی ایک لازوال واقعہ بابا فرید الدین گنج شکر کی زندگی میں بھی آتا ہے کہ لوحِ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر رہ گیا۔
بابا فرید نے جب اپنے مرشد کی نگرانی میں عبادت ریاضت چلہ کشی کے سخت مراحل طے کر لیے تو اب مرشد کے حکم پر ہانسی کی رہنے والی خاتون نجیب النساء سے شادی کر لی جس کا خاندان ہانسی میں رہائش پذیر تھا اِسی وجہ سے بابا فرید نے طویل عرصہ تک ہانسی میں رہائش اختیار کی بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق ہانسی میںطویل قیام کی وجہ بابا فرید کا لاڈلہ مرید شیخ جمال الدین ہانسوی بھی تھا جس سے بابا فرید دیوانگی کی حد تک پیار بلکہ عشق کر تے تھے بابا جی کی جمال الدین ہانسوی سے شدیدمحبت کو دیکھ کر باقی مریدین حسد کا شکا ر ہو جاتے تھے ۔ حضرت جمال الدین ہانسوی حضرت امام ابو حنیفہ کی نسل سے تھے تمام ظاہری علوم کے بعد اعلیٰ درجے کے خطیب تھے لفظوں کے جادوگر تھے جہاں بھی واعظ کر تے علم و دانش کے مو تی آبشار کی طرح آپ کی زبان سے پھسلتے کہ سننے والے سنگی بتوں کا روپ دھار لیتے ‘ الفاظ قطار میں جمال الدین ہانسوی کے سامنے کھڑے ہو جاتے آپ الفاظ کی سحر انگیزی سے حاضرین دھاڑیں مار نے پر مجبور کر دیتے یا مسکراہٹوں کے چاند چہروں پر روشن کر دیتے ‘ شہنشاہ پاک پتن بابا جی کو جب جمال کے بارے میں بتایا گیا تو آپ بو لے جمال لفظوں کا جادوگرہے لیکن دل کی دنیا حقیقی خو شی اور معرفت سے ویران پڑی ہے۔
جمال الدین ہانسوی واقعی باطنی مسرت سے محروم تھے جب بابا جی کی بات سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور اقرار کیا آپ درست فرما رہے ہیں میں واقعی باطنی سرشاری سے محروم ہوں مجھے اپنی غلامی میں لے کر میری اُجڑی دنیا آباد کریں مجھے رنگ دیں تو بابا جی بو لے تم تو گفتگو الفاظ میںماہر ہو میں فقیر کیسے تمہاری تسکین کر سکتا ہوں تو جمال الدین بولے اے دلوں کے مسیحا میرے دل کی دنیا ویران بنجر ہے خدا کے لیے اُسے آباد کر دیجئے میرے باطنی اضطراب کو دور کردیں اپنے عشق کی ایک چنگاری میری نظر کردیں وہی چنگاری میرے دل کے سرد خا نے کو آتش عشق کی حرارت سے ہمکنار کر ے گی اے شہنشاہ معرفت ایک چنگاری کی بھیک مجھے دے دیں ورنہ میں بنجر پتھر کی طرح زند گی گزار کر پیوند خاک ہو جائوں گا میری حالت پر اے مسیحا عظیم رحم فرمائیں مجھے غلامی میں لے لیں جمال الدین بلکتے بچے کی طرح گریہ زاری کر رہا تھے تو سلسلہ چشت کے عظیم مسیحا بابا فرید نے وقت کے بہت بڑے خطیب کو بڑھ کر گلے سے لگایا اور کہا آج سے تو میرا جمال ہے پھر اہل دنیا نے دیکھا کہ دنوں میںہی جمال الدین بابا فرید کی آنکھ کا تارا بن گیا۔
بابا جی نے برق رفتاری سے روحانیت کی منزلیں طے کرانا شروع کر دیں جمال الدین ظاہری علوم شاعری اور کئی کتابوں کے پہلے سے ہی مالک تھے اب باطنی دنیا بھی آباد ہو چکی تھی جلد ہی آپ ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کے زیور سے بھی آراستہ ہو گئے جب آپ کی روحانی تربیت مکمل ہو گئی تو بابا جی نے حضرت جمال الدین ہانسوی کو خرقہ خلافت بھی عطا کر دیا ظاہری علوم کے بعد جب باطنی غلام بھی جمال الدین نے پا لیے تو آپ کی آواز کی سحر انگیزی اور بھی بڑھ گئی آپ کی شہرت ہانسوی سے نکل کر ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئی جب آپ کی شہرت ملتان پہنچی تو بابا فرید کے دوست اپنے وقت کے عظیم بزرگ حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی نے بابا فرید کو خط لکھ کر عجیب فرمائش اور سوال کر ڈالا کہ میرے سارے خلفاء اور مریدوں کو آپ لے لیں اِس کے بدلے میںمجھے صرف جمال الدین ہانسوی دے دیں تو شاہ پاک پتن نے کیا خوب جملہ کہا جما ل میر اجمال ہے قیمت مال کی ہو سکتی ہے جمال کی نہیں بابا جی کے انکار کے بعد بھی یہ فرمائش ختم نہ ہو ئی بلکہ چند دن بعد پھر حضرت بہا ئو الدین ذکر یا ملتانی نے ایک اور خط لکھ دیا ساتھ ہی پرانا سوال بھی کہ اگر آپ جمال الدین ہانسوی کو مستقل طور پر نہیں دے سکتے تو برائے مہربانی ہمیں چند دن کے لیے ہی جمال الدین دے دیں تا کہ ہم چند دن ہی جمال الدین سے دل بہلا سکیں۔
ہماری اِس خواہش کو رد نہ کریں جمال چند دن کے لیے ہمیں بھیج دیں تو بابا جی نے دوبارہ کہا جمال میرا جمال ہے آپ چند دنوں کی بات کر رہے ہیں دنوںکی بات تو دور کی بات ہے ہم چند لمحوں کے لیے بھی جمال کو خود سے دور کر کے آپ کو نہیں دے سکتے اور نہ ہی ہم جمال کی جدائی برداشت کر سکتے ہیں چند دن گزر گئے تو حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی نے پھر جمال کا تقاضہ کر دیا کہ حضرت ہمیں چند دن جمال عطا کر دیں تو بابا فرید نے جواب دیا آ پ ہمیں بار بار لکھ کر شرمندہ نہ کریں ہم آپ کو انکار کر نا بھی نہیں چاہتے لیکن جمال میرا جمال ہے جس کا میں سودا نہیں کر سکتا کتاب سیرالاقطاب میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب بابا جی نے بار بار انکار کیا تو جناب شیخ بہائو الدین ذکریا ملتانی نے ہمت نہیں ہاری بار بار تقاضہ کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ اور روحانی قوت سے جمال الدین ہانسوی کو اپنی طرف راغب کر نے کی کوشش شروع کر دی آخر کار وہ دن بھی آیا جب جمال الدین شاہ پاک پتن کے حضور پیش ہو کر درخواست کر تے ہیں اے میرے مسیحا مجھے چند دن کے لیے ملتان جانے کی اجازت درکار ہے۔
شیخ جمال کی بات سن کر بابا فرید حیران زدہ رہ گئے اور بولے میرے جمال تمہیں ملتان جانے کی ضرورت اور خواہش کیوں پیدا ہو گئی تو شیخ جمال بو لے میں حضرت بہائوالدین ذکر ملتانی کی خدمت اقدس میں حاضر ہو نا چاہتا ہوں جمال کی بات سن کر بابا فرید اور چونکے حیران ہو کر بولے یہ تم کیا کہہ رہے ہو اگر میں نے تمہیں ملتان بھیجنا ہو تا تو شیخ بہائو الدین ذکریا کو انکار کیوں کر تا تم کیوں جانا چاہتے ہو نہ جائو لیکن جمال الدین بابا جی کی ناراضگی محسوس نہ کر سکے کھڑے رہے اور دوبارہ بو لے مجھے ملتان جانے کی اجازت دی جائے یہ شاید شیخ بہائو الدین ذکر یا کی روحانی تو جہ جو جمال ملتان جانے کی ضد کر رہے تھے بابا فرید کو جمال سے اتنی ضد کی بلکل بھی امید نہیں تھی شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار غصے سے چہرہ لال سرخ ہو گیا غیظ کا عالم تھا لہجہ بھر غصے سے بھر گیا اور بو لے اگر تم باز نہیں آسکتے تمہیں ملتان جانے کا بہت شوق ہے تو جائو ہمیں چھوڑ کر چلے جائو اور ملتان جا کراپنا منہ کالا کرو بابا فرید اپنے لاڈلے مرید کی جدائی سے غضب ناک لہجے میں بو ل رہے تھے ورنہ اُن کے منہ سے تو ہمیشہ پھول جھڑتے تھے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org