تاریخ میں اتنی اچھے اچھے واقعات درج ہیں کہ کتابوں سے محبت کرنے والے ان کے سحر میں ڈوب ڈوب جاتے ہیں سوچاکہ آپ کو بھی اس مطالعہ میں شریک کروں بہرحال ساریخ کے جھروکوں سے دو واقعات پیش ِ خدمت ہیں مائیکل ہارٹ نامی ایک یہودی مصنف نے ایک کتاب لکھی ” ہے 100 اہم ترین شخصیات ” یہ کتاب لکھنے سے پہلے اس نے 28 سال تحقیق کی اور دنیا کی تاریخ میں آنے والی 100 اہم ترین اور ممتاز شخصیات کے بارے میں تحریر کیا یہودی ہونے کے باوجود اس نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ان ا ہم ترین شخصیات میں سر فہرست رکھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک روز جب وہ لندن کی ایک یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا تو کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ اس نے محمد ۖ کو نمبر ون کا کیوں درجہ دیا تھا؟
اس پر مائیکل ہارٹ نے جواب دیا”نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ سلم نے 611 ء میں مکہ کے وسط میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا: ‘میں اللہ کا رسول ہوں اس وقت ان پر چار افراد ایمان لائے تھے جن میں ایک ان کا سب سے اچھا دوست ، ان کی بیوی اور دو لڑکے شامل تھے۔ آج 1400 سال کے بعد مسلمانوں کی تعداد 1.5 ارب سے زائد ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہور رہاہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ جھوٹے نہیں تھے کیونکہ جھوٹ 1400 سال تک نہیں چلتا . نہ ہی کوئی 1.5 ارب لوگوں کو بیوقوف بنا سکتا ہے۔ غور کرنے کی ایک اور بات یہ ہے کہ یہ اربوں مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پہ اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہیں یعنی تمام مسلمان آپ ۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو مرنے مارنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں دنیا میں اتنی عقیدت کسی اور شخصیت کے حصہ میں نہیں آئی” تم ہی بتائو کتنے عیسائی ہوں گے جو یسوع کے لئے ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں؟”
اس کے بعد پورے ہال میں خاموشی چھا گئی ! کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دوسرا واقعہ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سے لیا گیاہے پڑھئے۔ اور سر دھنئے بت شکن سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا. دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں وزیر،مشیر اولیائ،قطب اور ابدال بھی تھے۔ *سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے۔سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں .سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہو گا۔۔سلطان نے شرط منظور کر لی اس شخص کو چلہ کے لئے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے۔مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا… ؟*
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام میں نے آپ سے جھوٹ بولا … میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے اک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے . وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے . دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا ۔ بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتاو اس نے کہا سر اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آیی .اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کردیں ……اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے ….ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا … ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ….سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے۔
*بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے اک قصائی کو وزیر بنا لیا…دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اْس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا آپ کی غلطی یہ ہے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیرہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ھی مرنا ہے۔
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے سیّد کی شان یہ ہے کہ وہ اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلہ لینے کا کبھی نہیں سوچتا ….سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم آل ِ رسول ۖ ہو…..*
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی اس کا ایک راز کھول دیتا ہوں۔* *اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔