جنوبی کوریا (جیوڈیسک) پاکستانی پروفیشنل باکسر محمد وسیم نے ورلڈ باکسنگ کونسل کے سلور فلائی ویٹ ٹائٹل کو اپنے کرئیر کی شاندار ابتدا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
محمد وسیم نے اتوار کے روز فلپائن کے باکسر جیدر اولیوا کو شکست دینے کے بعد جنوبی کوریا کے شہر سول میں کہا کہ انھوں نے یہ باؤٹ جیت کر نئی تاریخ بنائی ہے کیونکہ عام طور پر جو بھی باکسر امیچر سے پروفیشنل میں آتا ہے وہ چار راؤنڈز کے مقابلوں سے ابتدا کرتا ہے اور بتدریج چھ آٹھ اور دس راؤنڈ کے مقابلوں تک آتا ہے اوراسے اس میں تین سے چار سال لگ جاتے ہیں لیکن وہ صرف آٹھ نو ماہ میں ہی دس راؤنڈ کے مقابلے سے ابتدا کرتے ہوئے 12 راؤنڈ کے مقابلے تک آ پہنچے ہیں۔
محمد وسیم نے کہا کہ وہ پرفیشنل باکسنگ میں انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن اور ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن کے دیگر ٹائٹلز بھی جیتنا چاہتے ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔
وسیم نے اپنی تمام تر کامیابیوں کا کریڈٹ اپنے کورین پروموٹر اینڈی کم کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اب تک ان کی ٹریننگ کوچنگ اور دیگر مد میں پانچ چھ کروڑ روپے لگاچکے ہیں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔محمد وسیم نے کہا کہ اینڈی کم نے انہیں ہر قدم پر حوصلہ دیا ہے۔جب وہ ان کے پاس آئے تھے تو انھوں نےان سے کہا تھا کہ پاکستان میں تمہیں کسی نے سپورٹ نہیں کی لیکن تم پروفیشنل باکسنگ میں اپنا کریئر بنا سکتے ہو۔
محمد وسیم نے امیچر باکسنگ کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کے کریئر میں حاصل کردہ کامیابیوں میں پاکستان باکسنگ فیڈریشن کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے عہدیداروں نے ایک بار نہیں بلکہ تین بار ان کا پروفیشنل میں جانے کا راستہ روکنے کی کوشش کی جس کے بارے میں وہ وقت آنے پر تمام حقائق سے دنیا کو آگاہ کریں گے۔
محمد وسیم نے کہا کہ پاکستان میں باکسنگ ایک اہم کھیل رہا ہے لیکن اسے کوئی نہیں پوچھنے والا۔حکومت کی سرپرستی نہیں ہے اور نہ ہی باکسرز کو سپانسرز میسر ہیں ایسے میں وہ صرف اپنے ٹیلنٹ پر میڈلز جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ محمد وسیم نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک کے لیے کئی تمغے جیتے لیکن حالات سے دلبرداشتہ ہوکر انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔
واضح رہے کہ محمد وسیم نے 2014 کے کامن ویلتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ محمد وسیم پروفیشنل باکسر بننے کے بعد امریکہ کے شہر لاس ویگس میں مقیم ہیں جہاں وہ مشہور باکسر فلائیڈ مے ویدر کے ٹریننگ سینٹر میں ٹریننگ کرتے ہیں اور فلائیڈ مے ویدر کے چچا جیف مے ویدر ان کےٹرینر ہیں۔
محمد وسیم کا کہنا ہے کہ امریکہ میں باکسنگ کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے اور آپ کسی بھی ملک کے باکسر ہوں امریکہ میں انھیں پذیرائی ملتی ہے اور کامیابی کی صورت میں سپانسرشپ بھی کافی موجود ہے۔
محمد وسیم نے کہا کہ ان کی اگلی باؤٹ کا ابھی نہیں معلوم نہیں لیکن فی الحال وہ ایک ماہ آرام کریں گے اور پھر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کریں گے۔