تحریر : ایم سرور صدیقی ٹیچر نے کلاس میں ایک طالبعلم سے پوچھا وہ کون سی چیز ہے جو ہے تو آپ کی لیکن زیادہ تر اسے دوسرے استعمال کرتے ہیں؟ ۔۔۔۔طالبعلم سوچ میں گم ہوگیا دماغ بھی کھپایا لیکن بات نہ بنی ۔۔۔شرمندہ شرمندہ انداز سے ٹیچرکی طرف دیکھا گویا ہار مان لی ہو ۔۔۔ٹیچر نے کہا آپ کا نام ایسی چیز ہے جو زیادہ تر دوسرے استعمال کرتے ہیں طالبعلم لاجواب ہوگیا۔ کہتے ہیں نام زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے اسی لئے لوگ خوبصورت نام رکھتے ہیں اس کے باوجود آپ نے یہ محاورہ تو اکثر سناہوگا کہ نام میں کیا رکھاہے پھول کو کسی نام بھی پکارو ۔۔وہ تو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتاہے لیکن نام ۔۔تونام ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پہچان کی علامت ہے انسانوںکے نام کی بات اورہے شہروں،قصبوں اور علاقوںکے ناموںکی بات اور ان کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور نام رکھنے کی وجہ تسمیہ بھی۔۔۔انگریزوںنے بر ِ صغیرپر غاصبانہ قبضہ کیا تو سب سے پہلے اس نے ہندوستان کو” انڈیا ” کا نام دیکر اس کی پہچان پرحملہ کیا اور بہت سے شہروںکے نام تبدیل کرکے رکھ دئیے یہ بر ِ صغیرکی تہذیب پر حملہ تھایہ دراصل ایک مخصوص سوچ کا آئینہ دارہے ایک منتشر،تعصبانہ اورغاصبانہ زاویہ ٔ فکر کی علامت جس کی کوکھ سے انتہا پسندی نے جنم لیاہے۔۔
کئی سال پہلے ہندوستان میں اسی سوچ ،اسی فکر اوراسی خیال کے انتہا پسند ہندوئوںنے تاریخی بابری مسجدکو شہید کرکے وہاں رام مندر بنانے کااعلان کردیاجس نے کئی فتنوںکوہوا دی اس کی آڑمیں مسلم کشی کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے گئے سینکڑوں مسلمانوںکو شہید اور معذور کردیا گیا ، تاریخی بابری مسجدکی تاریخی حیثیت مسخ کرنے اور متنازعہ بنانے کی کوشش تو ناکام ہو گئی اسی طرح دنیا بھر کے یہودی قبلہ ‘ اول بیت المقدس کو شہید کرکے وہاں ہیکل ِ سلیمانی بنانے کی سازش کررہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کا امن کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کام ہورہاہے اقوام ِ عالم میں جس ملک میں بھی ایسا ہورہاہے دراصل یہ سب کچھ ایک مخصوص ذہن کے لوگ کررہے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں جو ہرکام متشدد انداز سے کرنے کے عادی ہیں یہ لوگ رواداری، برداشت ،تحمل اورپر یقین نہیں رکھتے
جس کی بناء پر مذاہب کے درمیان تنائو قائم رہتاہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں،افواہوںیا واقعات سے لوگ بھڑک اٹھتے ہیں،مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں یہ رویہ تہذیبوںکا دشمن ہے اور امن کا قاتل ۔۔۔ اس سے مذاہب کے درمیان تصادم کے خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں پاکستان میں بھی کچھ لوگ ڈنڈے کے زورپر ہر چیز کو” اسلامی ”بنانے پر تلے ہوئے ہیں ان کا کہناہے ایک اسلامی ملک میں غیرمسلموںکے ناموں سے شہروں علاقوں کے نام موسوم نہیں ہونے چاہییں یہ غیر اسلامی بات ہے یہ لوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کیلئے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔۔۔شہروں،قصبوں اور علاقوںکے نام تبدیل کرنا ۔ ۔۔
History
تاریخ سے ایک سنگین مذاق ہے بلکہ اسے تہذیب پر حملہ بھی قراردیا جا سکتاہے یہ تواپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنے والی بات ہوئی نا۔۔۔میری ایک شخص سے اس سلسلہ میں بات ہوئی اس کا کہنا تھا اندھا دھند نام تبدیل کرنے کے حامیو ں سے کوئی پوچھے کیا زہر کی بوتل پر تریاق لکھ دینے سے فائدہ ہوگا۔۔۔۔کیا ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کرکے رسول پورہ رکھا جاسکتاہے؟ ۔۔۔کیانام بدل دینے سے اس شہرکے لوگوںکی سوچیںبدل جائیں گی؟۔۔۔ایک اور شخص کا کہنا تھا کسی شہر کا نام یاکسی چیزکی تاریخی حیثیت تبدیل کرنا اچھی بات ہے توتاریخی بابری مسجدکے معاملہ میں کیوں اتنا شور مچایا جارہاہے۔۔۔دراصل کسی بھی معاملہ کا انتہا پسندی کوئی حل نہیںبرِ صغیرپاک و بنگلہ ہند کی اپنی ایک تاریخ ہے یہ معاملہ ہر قسم کے تعصب،مذہب اور لسانیت سے بالاتر ہوکر سوچنے کا ہے اس خطے کی تاریخ کوبعینٰہ تاریخ رہنے دیں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کی کوشش خطرناک ہوسکتی ہے جو لوگ ہر قیمت پر پاکستان کے پرانے شہروں یا چیزوںکے ناموںکو ”اسلامی ” بنانا چاہتے ہیں اگر ان کا مطالبہ مان بھی لیا جائے تو ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے جناب ِ عالی!سرگنگارام ہسپتال،میو ہسپتال،گلاب دیوی ہسپتال کانام بدل کر آپ کیا نام رکھنا پسند کریں گے؟مونجوڈارو، ہڑپہ کے نئے نام کیاہونے چاہییں۔ اور وہاں سے دریافت ہونے والی صدیوںپرانی تہذیب کا کیا نام رکھا جائے کیا
گندھارا تہذیب کو اسلامی قراردیا جا سکتاہے یا آرین تہذیب کو ۔ مسلمان بنایا جا سکتاہے۔؟ جناب یہ ہمارے خطے کی تہذیب، ثقافت، تمدن اورروایات کے امین نام ہیں انہی میں ان کا حسن پوشیدہ ہے لاہور،قصور، ایمن آباد،ٹیکسلاسمیت سینکڑوں نام ”غیر مسلم”ہیں آپ کس کس کا نام تبدیل کریں گے؟ اور اس کی بجائے لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔نفرتوںکے خاتمہ کیلئے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن کر سمٹ گئی ہے نفرتیں پال کر،دنیا سے کٹ کر یا دوسروںپر اپنے بے بنیاد نظریے ٹھونس کر زندگی نہیں گذاری جا سکتی ہم سب کو قول و فعل کا تضاد اور دہرا معیار ترک کرناہوگا دنیا میں امن ،سکون کا واحد حل یہ ہے کہ ”اپنا عقیدہ مت چھوڑو ۔۔۔دوسروںکا عقیدہ مت چھیڑو” اس اصول کے بغیرسکون مل سکتاہے نہ ترقی کی جا سکتی ہے۔
جولوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کیلئے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں ان کو اعتدال کی راہ اپنانا ہوگی اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال سکھاتاہے، توازن کا سبق دیتاہے اور میانہ روی کا حکم دیتاہے۔ مخصوص سوچ سے منتشر ،تعصبانہ اورغاصبانہ انداز ِ فکر پروان چڑھتاہے جس کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے ہم اور ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کا متحمل ہرگزنہیں ہو سکتا تہذیبوںکو تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زیادہ بہترہے ایک بچے کا نام تبدیل کرنے کیلئے نادرا والے سو کھیکھن کرنے پر مجبور کردیتے ہیں اور آپ ہیں کہ کتنی سادگی سے صدیوں پرانے نام تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں خدا کیلئے تاریخ پر رحم کھائیں۔