کوئی دل کو اچھا لگتاہے ۔کوئی ہرج نہیںیا ہماری کسی سے وابستگی ہو جائے ۔۔اس میں بھی کوئی برائی نہیں یا پھر کسی جماعت، تنظیم یا پارٹی کے آپ رکن ہویہ بھی آپ کا حق ہے جسے بلاچوں چراں تسلیم کیا جا سکتاہے لیکن ذاتی خواہشوں کے صحرا میں بھٹکتے ہوئے کوئی حقائق مسخ کرنا چاہے یا سچائی کا گلا گھونٹے کی جسارت کرے یا تاریخ کی گردن پر کلہاڑا چلا کر اپنے آپ کو”ارسطو” سمجھ بیٹھے تو یہ ہم سب پر تاریخ کا قرض ہے کہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیا جائے کیونکہ مذہب،اخلاق اورضمیر اس کی جازت نہیں دیتا ۔اب آپ سوال کر سکتے ہیں کہ پھر ایسی باتیں اخبارات و جرائد میں کیونکر طبع ہوتی ہیں تو جناب اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ جس طرح مسلمانوں میں تحقیق اور تخلیق کا عنصر ختم ہوگیاہے اب اس میں کوئی بعیدنہیں کہ اخبارات و جرائد میں بھی تو ہم جیسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو مکھی پرمکھی مار کر شاہکار تخلیق کرنے کے دعوے دار ہیں۔قومی و علاقائی اخبارات میں ایک فاضل مضمون نگار نے اپنے ”رہبرکی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت مولانا مودودی سے ملاقات کے بعد علامہ اقبال نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ پٹھان کوٹ چلیں جائیں وہاں آپ کی زیادہ ضرورت ہے اب یہ تو معلوم نہیں کہ تاریخی اعتبار سے اس دعوےٰ میں کتنی صداقت ہے اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے درمیان نظریاتی اختلافات انتہائی شدید بلکہ سنگین تھے دراصل اس کی آڑمیں فاضل مضمون نگار یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ علامہ اقبال کو جماعت اسلامی کے بانی سے بہت عقیدت تھی اور وہ ان سے متاثر تھے اب ایسی عقیدت کا کیا فائدہ کہ علامہ اقبال جیسا شخص بھی مودودی صاحب کو تحریک ِ پاکستان کی جدو جہد کے لئے قائل نہ کرسکا اور بقول علامہ اقبال۔۔مولانا مودودی کی پٹھان کوٹ کو زیادہ ضرورت تھی تو پھر آپ جناب قیام ِ پاکستان کے ساتھ ہی لاہور پاکستان کیوں تشریف لے آئے اور حضرت ساری زندگی جس سیاست کو حرام قرار دیتے رہے پاکستان آتے ہی حلال کیسے ہوگئی؟۔
اسی طرح ایک اور صاحب جمیعت العمائے اسلام کے ایک کنونشن کی روئداد لکھتے ہوئے اس بات پر انتہائی برہم ہیں کہ ہماری جماعت برصغیرکی پرانی جماعت ہے یہ مسلم لیگ کہاں سے آگئی؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے آج تلک مسلم لیگ کو تسلیم ہی نہیں کیا اسی لئے تو ایسی باتیں سرعام کرکے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں جناب آپ کہتے ہیں ہماری جماعت خطے کی سب سے قدیم جماعت ہے سر تسلیم ِخم لیکن حضور تاریخ یہ ہے کہ اس جماعت نے قیام ِ پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی اوربرصغیرپاک وہند کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار ِ یکجہتی کرنے کی بجائے ہندئو ،کانگریس اور احرا ر کا ساتھ دیا تھا آپ کے کچھ لوگ اعلانیہ کہتے رہے ”خدا شکرہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے”۔ آج کچھ لوگ مولانا ابوکلام آزاد کو بھی انگریزوںکے خلاف تحریک ِ آزادی کا ہیرو بناکر پیش کررہے ہیںیہ لوگ کیسے لوگ ہیں جو دن دیہاڑے تاریخ مسخ کئے جارہے ہیں اور حقائق سے عاری اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر صاحبان انہیں من و عن چھاپتے چلے جارہے ہیں اب ان حالات میں اناللہ وانا الیہ راجعون ہی کہاجاسکتاہے ۔ جناب اس طرح پاکستان بنانے والوں کو تین محاذوںپر آزادی کی جنگ لڑنا پڑی ایک انگریزوں کے خلاف،دوسرا ہندئوںکے خلاف اور تیسرا محاذ ہندونواز مسلم علماء کے خلاف۔ اور تاریخ نے فیصلہ ان غریب مسلمانوں کے حق میں دیدیا جنہوں نے حضرت قائد ِ اعظم کی قیادت میں آزادی کی خاطربیش قیمت قربانیاں دیں آپ کو اس آزادی کی کیا قدرہو سکتی ہے آپ کو تو بنا بنایا ملک مل گیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال کریں آپ لوگوںنے پاکستان کیلئے آج تک کیا کیا؟ قربانیاں ان لوگوں نے دیں جو اپنے جگر گوشوںکو ہندوئوں سکھوں نے ان کے سامنے نیزے کی انھی پر پرودیا، وہ بے بس،مجبوروالدین کے سامنے ان کی نوجوان بچیوںکو اٹھاکرلے گئے۔
یہ اس پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ بڑی بڑی باتیں بھی وہی لوگ کرتے ہیں جنہوںنے پاکستان کیلئے ایک انگشت بھی قربان نہیں کی بلکہ عام پاکستانیوںسے پاکستان بنانے کا آج تک انتقام لیاجارہاہے ایک سازش کے تحت جنوبی ایشیا ء کے ہجرت کرنے والے بھولے بھالے مسلمانوں وسائل سے محروم رکھا گیا افسوس صدافسوس منزل انہیں ملی جو شریک ِ سفر نہ تھے یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں ہزاروں مائوں،بہنوں بیٹیوں نے اس پاک دھرتی کے حصول کیلئے اپنی عصمت قربان کردی،سینکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندوئوں،سکھوں نے اپنی رکھیل بنا ڈالا جن میںدرجنوں آ ج بھی زندہ ہوں گی پاکستان زندہ باد کا نعرہ اتنا بڑا جرم بن گیا تھا ظالموں نے بے شمار مائوں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیا ۔ یہ پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیاء کے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی اپنے آپ کو پنجابی کہنے والے سکھوں نے پنجابی قوم پر ہی سب سے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑڈالے انہوںنے ماں بولی کا بھی خیال نہ کیا کاش انڈیا سے پاکستان آنے والی اس خون میں ڈوبی ریل گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جاتا جس میں کٹے پھٹے اپنے ہی لہو میں نہائے زخمیوں، بے گناہ مسلمانوںکی لاشوں اور زخموں سے چیختی نوجوان لڑکیوں، مائوں سے چھاتی سے چمٹے معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جن کا کوئی جرم نہ تھا جن کو ناحق ماردیا گیا قومی المیہ یہ ہے کہ جن قوتوںنے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا وہ سازش، دھونس اور جبر سے اس ملک کے وارث بن بیٹھے وہ آج بھی ہم سے پاکستان بنانے کے جرم کا انتقام لے رہے ہیں۔
بس انداز بدل گیا ان کا ذہن آج بھی 1947ء جیساہے ہماری سمجھ میں بات نہیں آرہی، یہی لوگ کبھی ڈیم نہیں بننے دیتے،کبھی حکومتوںکو عدم سیاسی استحکام سے دوچارکردیتے ہیں ،کبھی معاشی طورپر کمزور کرنے کی سازشیں کرتے ر ہتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے مفادات کیلئے حکومتوںکو بلیک میل کرتے ہیں اورہمارے ناعاقبت حکمران ہرقیمت پر اقتدار میں رہنے کی خاطر ان سے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں جس سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کسی کو پاکستان کی فکرنہیں ان چہروں نے 22 کروڑ عوام کو خوشیوں کو یرغمال بنایا ہواہے۔ ان لوگوںنے پاکستان کے سارے سسٹم کو یرغمال بنارکھا ہے پاکستان یہ دشمن مذہب، صحافت، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں حکومت جمہوری ہو یا ڈکٹیٹروں کی یہ لوگ آپ کو ہمیشہ اقتدار میں نظر آئیں گے حالانکہ ہم وطنوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو تسلیم کرلیں اجتماعی کوششوںسے ہم ایک پاکستانی قوم بن جائیںفرقہ پرستی،لسانی جھگڑے،صوبائی عصبیت اور سیاسی بغض و عنادکا خاتمہ ہوجائے ہم سب خیبر پی کے، سندھ ،کشمیر، پنجاب،بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لوگ ایک قوم بن کر پاکستان کا مفاد عزیزرکھیں اب زبانی باتوںکا نہیں عملی طورپر ہم سب کو ثابت کرنا ہوگا یادرکھیں جولوگ ماضی کی غلطیوں،خامیوں اورحالات سے نہیں سیکھتے پھران سے تاریخ لہو کا خراج مانگتی ہے اور جن قوموں کا ضمیر سوجائے یا جو معاشی،معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہوجائیں یاجو قومیں مقروض ہوکر غیروں سے قرضے مانگتی پھریں انہیں باربار لہو کا خراج دینا پڑتا ہے۔
یہ کس نے ہم سے لہوکا خراج پھر مانگا ابھی تو آئے تھے مقتل کو سر خرو کر کے