تحریر : محمد اشفاق راجا جنگ قادسیہ خلیفہ راشد حضرت عمر کے عہد 636ء میں مسلمانوں اور ایران کی ساسانی سلطنت کے درمیان لڑی گئی، ایک اہم جنگ جس کے نتیجے میں موجودہ عراق مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں جانے والے 30 ہزار مسلمان فوجیوں نے ایک لاکھ سے بھی زیادہ ایرانی فوجیوں کو بدترین شکست دی۔ یہ جنگ پانچ دن جاری رہی، یہاں تک کہ ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد مارا گیا۔
اس کامیابی نے مسلمانوں پر ایران کے دروازے کھول دئیے اور کچھ ہی عرصے میں عظیم ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، جس کی حضرت محمد ۖ نے پیش گوئی کی تھی۔ جنگ یرموک جس وقت مسلمان مشرق میں ایران کی عظیم ساسانی سلطنت پر کامیابیاں حاصل کر رہے تھے، مغرب میں حضرت خالد بن ولید، حضرت ابو عبیدہ الحراج اور حضرت عمر بن العاص نے جنگ یرموک میں اپنے وقت کی دوسری سپر پاور بزنطینی سلطنت کو فیصلہ کن شکست دی۔یہ جنگ موجودہ اردن کے دریائے یرموک کے کنارے اگست 636ء میں لڑی گئی۔ صرف 20 ہزار مسلمانوں نے ایک سے ڈیڑھ لاکھ رومی افواج کو شکست فاش دی۔ رومیوں کے 50 ہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے۔
یرموک کو تاریخ کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں اس لیے شمار کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی شام و ملحقہ علاقوں سے رومی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اسے حضرت خالد بن ولید کی سب سے شاندار فتح سمجھا جاتا ہے۔ جنگ طوغ جب مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کے سامنے دنیا جھک گئی تھی۔ دریائے سندھ سے لے کر سپین تک اْن کی حکومت تھی، تب اکتوبر 732ء میں پیرس سے محض 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ایسی جنگ لڑی گئی، جس نے مغربی یورپ کی قسمت کا فیصلہ کیا۔ سپین میں اْموی خلافت کے ایک سپہ سالار عبدالرحمن الغافقی فرانس کے علاقے فتح کرتے کرتے طوغ تک پہنچ گئے، جہاں فرانسیسی شہزادے شارل کے خلاف انہیں شکست ہوئی۔ نہ صرف مسلم افواج کا بڑا حصہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ خود عبدالرحمن الغافقی بھی شہد ہوئے۔
History Famous Battles
کہا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو یہ شکست نہ ہوتی، تو کم از کم فرانس اور ہو سکتا ہے کہ مغربی یورپ کے باقی اہم ممالک بھی اسلامی ریاست کا حصہ بن جاتے۔ فتح قسطنطنیہ مسلمانوں کو فرانس میں تو کامیابی نہیں ملی، لیکن 1453ء میں ترک مسلمانوں نے یورپ کا ایک اہم ترین شہر قسطنطنیہ ضرور فتح کیا اور مشرقی یورپ میں عیسائیت کے اس مرکز کو اسلامی سلطنت کا دارالحکومت بنا دیا۔ یہ کارنامہ 21 سالہ سلطان محمد فاتح کا تھا، جو سلطنت عثمانیہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے عیسائی بزنطینی سلطنت کے حکمران قسطنطنین کو شکست دی۔
شہر کا 53 دن تک محاصرہ کیا گیا ،جو 6 اپریل کو شروع ہوا اور 29 مئی کو ایک عظیم کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔ تیسری صلیبی جنگ جب عظیم مسلمان فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کر لیا، تو اسے واپس لینے کے لیے پورا یورپ امڈ پڑا۔ پوپ گریگری ہشتم کے اعلان پر انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل اور فرانس کے فریڈرک باربرو ساسمیت لاکھوں کا لشکر ارض ِمقدس کے لیے نکل پڑا۔ راستے میں مسلمانوں کے علاقوں، شہروں اور قصبوں کا تاراج کرتا ہوآیا۔ لیکن تمام ترکوششوں کے باوجود صلاح الدین ایوبی سے بیت المقدس واپس نہ چھین سکا۔ بالاآخر 1192ء میں معاہدہ کر کے واپس چلاگیا ،جس میں بیت المقدس پر مسلمانوں کی حکومت کو تسلیم کیا گیا۔ اس جنگ سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ علاقہ اب مسلمانوں کا ہے اور بیسویں صدی میں اسرائیل کے قبضے تک یہ علاقہ بھی اسلامی ریاست سے باہر نہیں گیا۔
War
جنگ عین جالوت 13ویں صدی میں منگولوں کی دہشت سے دنیا کانپ رہی تھی۔ یہ منگولیا سے نکلے، چین، وسط ایشیا اور ایران کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے اور کہیں بھی شکست نہیں کھائی۔ انہیں پہلی شکست ستمبر 1260ء مصر کے مملوک حکمرانوں نے دی۔ یہ جنگ موجودہ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی، جس میں سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس نے منگولوں کو ایسی شکست دی کہ اس کے بعد انہوں نے پھر کبھی مصر کا رْخ نہیں کیا۔ اسلامی تہذیب کے تمام بڑے مراکز، سمرقند، بخارا، بغداد اور دمشق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی، لیکن یہ مملوکوں کی دلیری تھی کہ جس نے قاہرہ کو محفوظ رکھا اور اسلامی تاریخ کا اہم ورثہ بچا لیا۔ جنگ پانی پت وہ جنگ کے جس نے ہندوستان کی تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔ 21 اپریل 1526ء کو دہلی کے قریب پانی پت کے تاریخی میدان میں لڑی گئی، جہاں ایک طرف ظہیر الدین بابر تھے اور دوسری طرف ابراہیم لودھی کی افواج۔ یہ تاریخ کی ان پہلی جنگوں میں سے ایک ہے، جس میں بارود اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا تھا۔
اس میں بابر کے 12 ہزار وفادار فوجیوں نے ابراہیم لودھی کو شکست فاش دی، جس کی بڑی وجہ بابری افواج کا توپ خانہ تھا۔ یہاں تک کہ لودھی کے 100 ہاتھی بھی اس کے سامنے کچھ نہ کر سکے اور جب بھی توپیں گولے پھینکتیں، ان کے دھماکوں سے ہی ہاتھیوں میں افراتفری مچ جاتی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد پڑ گئی۔