16 دسمبر ہماری شکست کی نہیں شکست کے اعتراف کی کہانی، اسی لئے اس قدر تکلیف دہ ہے۔جب ہمارے جوان لڑنا چاہتے تھے اور انہیں لڑنے کے آرڈر نہیں مل رہے تھے۔ ہار کو تسلیم کر لیا گیا تھا، ہتھیاروں کو پھینک دیا تھا۔۔ اور اس سے بھی بڑی شکست جو ہم نے مان لی وہ تھی، انڈین پر اپیگنڈہ کے آگے اسی طرح گھٹنے ٹیک دئیے جیسے میدان جنگ میں جنرل نیازی نے ہتھیار جنرل اروڑا کی جھولی میں ڈال دئیے تھے۔تاریخ ہمیشہ فاتح لکھتے ہیں مفتوح صرف سر پیٹتے رہ جاتے ہیں مگر ہم نے سر پیٹنا بھی گوارا نہیں کیا اور دنیا کے آگے اپنا حکومتی موقف اور سچ رکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔۔انفرادی طور پرکچھ لوگ اس شرمناک حقیقت کی سیاہی کم کر نے کی خاطر ان دنوں کا سچ سامنے لانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔۔ ایک کتاب کا ذکر کر نا چاہوں گی۔۔ میاں افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی (پاکستان کے فارن آفیسر) اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہائی کمشنر آف پاکستان بنگلہ دیش بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اپنی کتاب1971:facts and fiction میں لکھتے ہیں؛
“ایک دفعہ ڈھاکہ میں مجھے بہت اداس کر دینے والا تجربہ ہوا۔ ہمارا قونصلر آفیسر میرے کمرے میں آیا اور مجھے بتانے لگا کہ صبح ایک بنگلہ دیشی لاہور کا ویزہ لینے آیا تھا تو ا س نے ایک دماغ چکرا دینے والی بات سنائی ہے ۔ ہمارے قونصلیٹ نے اس کو ویزہ اسی وقت دے دیا تھا۔ اس بنگلہ دیشی نے بتایا کہ” وہ کچھ دن پہلے انڈین ہائی کمشن کے دفتر ممبئی کا ویزہ لینے گیا تھا۔ انڈین افسر نے اس کا بنگلہ دیشی پاسپورٹ اس کے منہ پر مارا اور انڈین ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔ اور ساتھ میں اسے بڑی غلیظ باتیں بھی سنائیں۔وہ تمسخر اور طنز سے مجھے کہہ رہا تھا؛ تم بنگلہ دیشی ہمیشہ پاکستان کو کیوں سپورٹ کرتے ہو؟کیا تم اب بھی پاکستان سے محبت کرتے ہو!اور جب بھی پاکستان اور بھارت کا میچ ہو رہا ہو تا ہے تم لوگ پاکستان کی حمایت میں نعرے مارتے ہو۔ کیا ہم نے تمہیں پاکستان سے آزادی لینے میں مدد نہیں کی تھی؟ تم لوگ ناشکرے اور بد معاش ہو۔۔ پاکستانی فوجیوں نے جب تمہاری عورتوں کا ریپ کیا تھا تو لگتا ہے ان عورتوں کو اپنی زندگی کی بہترین سیکس نصیب ہو ئی تھی۔۔اور اسی وجہ سے تم کاکروچ ابھی تک پاکستان سے محبت کرتے ہو۔۔۔؟”
افراسیاب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ؛” اسی طرح سلہٹ کے دورے کے دوران ان کو ایک ریٹائرڈ بنگلہ دیشی پولیس افسرملا اور اس نے کہا؛” اب ہمیں سمجھ آتی ہے کہ انڈیا نے ہماری مدد کیوں کی تھی، ان کا اردہ ہماری مدد کر نے کا نہیں بلکہ پاکستان کو توڑنے کا تھا۔ اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ 71 ء میں کس نے ہماری عورتوں کے ریپ کئے تھے اور لوگوں کو قتل کیا تھا۔یہ سب انڈین پنجابی فوجیوں نے کیا تھا جو پاکستان آرمی کی وردی پہن کر گھومتے تھے۔ کیونکہ ہم بنگالیوں کو پنجابیوں کی زیادہ پہچان نہیں تھی اور ہم یہی سمجھتے تھے کہ تمام پنجابی بس پاکستان میں ہی رہتے ہیں اس لئے ہمیں انڈین آرمی کے پنجابی اور پاکستانی فوج کے پنجابی کا فرق ہی نہیں پتہ چل سکا۔۔” .اس کے بعد وہ مجھے انڈیا اور بنگلہ دیش کے بارڈر کے پاس ایک جگہ گھمانے لے گیا۔ اور پھر مجھے بری حیرت ہو ئی کہ اس نے ایک جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے بتایا کہ یہاں پر انڈین فوجیوں نے بنگالی عورتوں کا ریپ کیا تھا۔۔
پھر وہ مجھے قریب کے ایک دیہات میں ایک ایسی عورت کی جھونپڑی میں لے گیا جو وہاں پر اپنی بہن اور کزن کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ ان تینوں کو مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں نے گینگ ریپ کیا تھا۔ وہ عورتیں ستر اسی سال کی ہو چکی تھیں.وہ پاکستانی ہائی کمشنر کو دیکھ کر ہکا بکا ہو گئی تھیں۔ ان میں جو سب سے بڑی عمر کی خاتون تھی، وہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ 27نومبر 1971 میں ہونے والے اس گھناونے اور مکروہ واقعے کو تفصیل کے ساتھ دہرا رہی تھی۔ وہ بے تکان بولتی جا رہی تھی۔ میں نے اس سے ایک ہی سوال پوچھا کہ اسے یہ کیسے پتہ چلا کہ ان کے زیادتی کر نے والے پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی فوجی ہیں۔ وہ لمحہ بھر کو رکی اور پھر بغیر کسی ججھک اور شرم کے بولی؛ ان چھ میں سے کسی کے بھی ختنے نہیں ہو ئے ہوئے تھے اور وہ اپنے۔۔ کے بارے میں بکواس کر رہے تھے اور ہندی نعرے لگا رہے تھے۔۔ باقی دو عورتوں نے بھی اسی قسم کی کہانی سنائی۔ وہ جن الفاظ میں اپنی کہانی دہرا رہی تھیں میں ان الفاظ کو یہاں نہیں دہرا سکتا۔ ”
ایک اور جھوٹ جو تواتر سے بولا جا تا ہے وہ یہ کہ پاکستانی فوجی نوے ہزار تھے۔71 میں پاکستانی فوجیوں (بری، بحری اور فضائی فوج کے سپاہی) کی کل تعداد 34000سے زیادہ نہیں تھی۔ یہی فوجی بھارتی فوج کے ساتھ بھی لڑ رہے تھے اور یہی فوجی مکتی باہنی سے بھی نبرد آزما تھے۔ باقی تو سویلین تھے جن کو جنگی قیدی بنایا گیا اور ان میں خواتین، بچے اور بوڑھے افراد بھی تھے۔
ایک اور الزام بڑے پیمانے پر لگایا جا تا ہے کہ پاکستانی افواج نے بہت زیادہ تعداد میں بنگالی خواتین کی آبر وریزی کی۔ شائید لوگوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ نومبر کو1971 رمضان المبارک تھا۔ اس مبارک مہینے میں کتنے مسلمان ہو ں گے جو ایسی نیچ حرکت کے مر تکب ہو ں گے۔ کینیڈا کے بنگلہ دیش میں پہلے ہائی کمشنر جیمز بارٹل مین نے اپنی آپ بیتی میں بنگلہ دیش کی حکومت کی اس مسئلے پر مبالغہ آرائی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
پاکستانی افواج پر ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے تیس لاکھ معصوم بنگا لیوں کا قتل عام کیا۔ بھارتی سکالر سرمیلا بوس،اپنی کتاب Bangladesh war dead reckoning: Memories of the 1971جو 2011 میں شائع ہو ئی,اس میں لکھتی ہیں؛ “اس امر کا وثو ق سے انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1971میں کم از کم پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان افراد ہلا ک ہوئے، جن میں فوجی جوان، سویلین، بنگالی، غیر بنگالی، ہندو، مسلم، بھارتی اور پاکستانی سب شامل ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز تو کر سکتی ہے لیکن اس سے آگے بیہودہ قیاس آرائیوں کی ایک اور ہی دنیا شروع ہو جاتی ہے۔ ”
ہمارے اس وقت کے نااہل فوجی حکمرانوں نے انٹرنیشنل میڈیا کو رپورٹنگ سے روکنے کے لئے ان کو ڈھاکہ سے بوئنگ میں بٹھا کر کرا چی روانہ کر دیا گیا تھا اور وہاں بڑے ہتک آمیز انداز میں صحافیوں کی تلاشیاں لے کر ان سے فلمز، ٹیپ اور ان کے نوٹس قبضے میں کر رہے تھے۔ اور اس کے بعد” ریڈیو فری بنگلہ دیش” دنیا تک خبریں پہنچانے کا واحد ذریعہ رہ گیا اور پھر جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ ریڈیو” کلکتہ سٹیشن آف آل انڈیا ریڈیو “ہی ہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی اور یہ ریڈیو سٹیشن باہر کی دنیا کے ذہن اپنی مر ضی کے حساب سے بنا چکا تھا۔
ایک بنگالی ہندو جر نلسٹ ساستھی براتا مشرقی پاکستان میں اندر تک چلا گیا اور پھر اس کو اپنی سچی رپورٹ لکھنے کے لئے انڈیا سے بھاگنا پڑا۔ گارڈین اخبار نے اس کی رپورٹ چھاپتے ہو ئے ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ” اگر وہ یہ رپورٹ انڈیا سے لکھتا تو اب تک گرفتار ہو چکا ہو تا۔” براتا نے صاف صاف لکھا کہ مکتی باہنی اصل میں انڈیا کے فوجی ہی ہیں، یہاں تک کہ انڈیا کی ائیر فورس بھی ایکشن میں آچکی ہے اور مشرقی پاکستان کے شہروں کو تباہ کر رہی ہے۔ افراسیاب لکھتے ہیں؛ تو اس وقت انڈیا میں صحافت کی یہ آزادی تھی۔ انڈیا کی مداخلت کے بارے میں سچ لکھنا ایک جر م بن چکا تھا۔ اور ساری دنیا انڈیا کے پراپگنڈہ کو سچ مان رہی تھی۔ جب کچھ باضمیر غیر ملکی صحافیوں کو اندازہ ہوا کہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے تو وہ اس علاقے میں خود جا نا شروع ہو گئے تاکہ اصلی صورتحال کا اندازہ ہو سکے۔جیسے ہی انڈیا کو یہ خبر ہو ئی کہ اب رپورٹنگ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہے تو غیر ملکی صحافیوں پر انڈیا سے باہر جانے کی پابندی لگا دی گئی۔ ان صحافیوں کو دہلی اور کلکتہ کے افسران خود پریس بر یفنگ دیتے۔ اگر صحافی بذات خود ان مقامات پر جانا چاہتے تو انہیں پرمٹ یا دخواست کے ایسے چکر وں میں پھنسا دیا جاتا کہ وہ انڈیا کی ریڈ ٹیپ ازم میں ہی گم ہو جاتے۔کیونکہ محتر مہ اندر گاندھی نہیں چاہتی تھیں کہ غیر ملکی صحافیوں کو ان ٹریننگ کیمپس(جو تقریبا 83 تھے)کا پتہ چل جائے جہاں پاکستانی افواج کے خلاف مکتی باہنی کو تیار کیا جا رہا تھا۔محترمہ اندرا گاندھی مسلسل یہی منترا جپتی رہیں کہ ہم صرف انسانی بنیادوں پر مشرقی پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی مد کر رہے ہیں۔ حالانکہ بھارتی شہریوں کے اس سے بھی زیادہ بدتر حالات مغربی بنگال اور انڈیا کے دوسرے صوبوں میں تھے مگر ان کی ہمدردی سرحد پار رہنے والوں سے تھی۔۔
25مارچ 1971، پاکستانی فوج کے کر یک ڈاؤن سے پہلے ہی قتل و غارت شروع ہو چکی تھی۔۔۔پو رے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کا وسیع پیمانے پر قتل و غارت شروع گئی تھی۔مکتی باہنی نے ہزاروں شہری،محب وطن پاکستانی،اور اسلامک سکالرز کو بے دردی سے مارنا شروع کر دیا تھا۔کینیڈا میں مقیم عظمت اشرف کی کتاب ریفیوجی ایسے ہی ظلم کی داستان سے بھری ہو ئی ہے جو اس وقت غیر بنگالیوں پر کئے گئے تھے۔
Fall of Dhaka
پنڈت نہرو کی اپنی کتاب میں پاٹیل کے یہ الفاظ درج ہیں کہ پاکستان چند ہفتوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ اور گھٹنے ٹیک کر ہم سے واپس آملیں گے۔ کرشنا مینن جو کہ 1962 میں ڈیفنس منسٹر تھے وہ پاکستان کو مسلم دور کی تجدید کی پہلی قسط سمجھتے تھے۔ یہ خوف ہندو سائکی میں بسا ہوا ہے کہ قطب الدین ایبک کا دور لوٹ آئے گا اور پھر سے مسلمان ان پر راج کر یں گے۔ وہ اکھنڈ بھارت اور ہندو ازم کی تجدید چاہتے ہیں۔۔ کشمیر کو پاکستان کے حوالے نہ کرنا اور کٹا پھٹا پاکستان قائد اعظم کے حوالے کر نا یہ سب ان کی سائکی میں بیٹھے اس خوف کو ظاہر کرتا ہے اور پھر پاکستان کو توڑنا اس کا ایک اور مظاہرہ ہے۔۔ اندرا گاندھی نے کہا میں نے نظریہ پاکستان کو بخیرہ بنگال میں ڈبو دیا۔ شیخ مجیب الر حمان کی بیٹی اور بعد کے حالات و واقعات سب ثابت کر تے ہیں کہ ملک کو توڑنے کی سازش اس وقت بھی ہو رہی تھی جب ان لوگوں کے منہ پرانکار تھا۔۔ لیکن شاباش ہے انڈین ایجنڈے کے متاثرین سے کہ جو آج تک انہی نمبرز اور انہی حالات کو دہراتے ہیں جو انہیں اسے وقت کلکتہ کے ریڈیو نے سنائے تھے۔۔ وہ آج بھی سچ جاننا، یا بولنا نہیں چاہتے۔۔
فاتح کے قلم سے لکھی تاریخ کو بار بار پڑھنے کی بجائے اس زمانے میں موجود عام انسانوں کی نظروں سے بھی تاریخ کو دیکھنے کی جرات پیدا کریں۔۔ پاکستان زندہ باد۔