جمعتہ المبارک ستمبر کی 7 تاریخ تھی جس دن حکومت نے عوامی دباؤ پر عاطف میاں کو اقتصادی کونسل چھوڑنے کی ہدایت کردی جی ہاں یہ وہی تاریخی تاریخ ہے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی اور سینٹ نے قادیانیوں اور لاہوری گروپوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا عاطف میاں ایک قادیانی تھا جسے موجودہ حکومت نے ایک اہم ذمہ داری دی تھی جس کے خلاف عوام نے اپنا بھر پور رد عمل دیا جسکے بعد حکومت نے بھی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملہ کو باقاعدہ ایک تحریک بننے سے قبل ہی ختم کردیا عاطف میاں کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایت کردی کیونکہ بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو ’’تاریخ‘‘بنا دیتی ہیں۔جیسے 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کو تاریخ بنایا۔ اسلامیانِ پاکستان نے حصولِ آزادی وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی تھی اور ان کے رگ و ریشے میں کلمہ طیبہ اپنی حقیقت و معنویت کے ساتھ موجود ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کلمہ کے الفاظ و معانی اور حقیقت میں رد وبدل کر سکے؟ یہاں کے مسلمان غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحرانوں کوتو سہہ سکتے ہیں لیکن اسلامی نظریات بالخصوص ناموس رسالت اور ختم نبوت جیسے عظیم الشان اور حساس موضوع پر مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔
اس دعوے کی ایک دلیل 7 ستمبر 1974ء کا وہ تاریخ ساز فیصلہ ہے جو عوامی طاقت نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیاجس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 22 مئی 1974کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر کے لیے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی،جس پر طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ طلبہ کا یہ قافلہ 29 مئی کو واپس ہونے لگا تو نشتر آباد اسٹیشن(جو کہ چناب نگر اسٹیشن سے پہلے آتا ہے) پر قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے چناب نگر کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کو بتلایا کہ فلاں بوگی طلبہ کی ہے۔ چنانچہ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی سینکڑوں مسلح افراد جس میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین، تعلیم الاسلام کالج کے طلباء، اساتذہ اور بعض قادیانی دکانداروں نے لاٹھیوں،سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی کر دیا۔ قادیانی اپنے ساتھ بازاری فطرت کی تین سو کے قریب عورتیں بھی لائے جب قادیانی غنڈے مسلمان طلبہ کو مارتے تو وہ رقص کرتیں اور تالیاں بجاتیں اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔30 مئی کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی31 مئی کو اس سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا3 جون کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔
9 جون کو مجلس عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو مقرر کیا گیا13 جون کووزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا14 جون کو ملک گیر ہڑتال ہوئی16 جون کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوری کوامیر منتخب کیا گیا۔30 جون کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔24 جولائی کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا۔5 اگست سے23 اگست تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزاناصر پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔20 اگست کوصمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔22 اگست کورپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔24 اگست کووزیر اعظم نے فیصلہ کے لیے7ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔27، 28 اگست کولاہوری گروپ پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
یکم ستمبر کولاہور شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔5، 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پرجرح کا خلاصہ پیش کیا۔6 ستمبر کو آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی راولپنڈی میں وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس بلائے اور 96گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔ تمام مسالک کی مذہبی وسیاسی قیادت نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں کردار ادا کیا خصوصاً مفکر اسلام مولانا مفتی محمود اور آپ کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد حیات، مولانا عبدالرحیم اشعر، مولانا تاج محمود، مولانا محمد شریف جالندھری جیسے اکابر نے دن رات ایک کر کے قادیانی کے مذہبی و سیاسی عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔ اس محنت میں قادیانیوں کی مذہبی حصے کی ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی (سابق جسٹس سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت)نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب مولانا سمیع الحق(سابق ممبر سینٹ آف پاکستان) نے اپنے ہاتھوں سے کی۔
7 ستمبرکو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا جس میں یہ طے کیا کہ جو فرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا۔ ان کے بعد مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سیاٹھے اور بل کی مکمل تائید کی اور اس اقدام پر وزیراعظم اور ارکان حزب اقتدار کو خراج تحسین پیش کیا۔ تقریبا پانچ بجے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی نے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ذوالفقار علی بھٹونے آدھ گھنٹے کے لگ بھگ تقریر کی جسکے بعد بل کی ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 130 ووٹ آئے اور قادیانیوں کی حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا۔چنانچہ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ بل پاس کیا اور مرزائیوں کو ہمیشہ کیلیے غیر مسلم اقلیت قرار دیااور پھر اسی دن 7 ستمبر 1974ء شام 7بجکر30منٹ پر سینٹ نے بھی بھاری اکثریت سے منظور کرکے اسے باقاعدہ قانون کی شکل دیدی اور یوں قادیانی غیر مسلم قرار دیدیے گئے۔