اس بات میں کوی دو راے نہیں کہ جتنے داریل حسین و جمیل ہیں۔اس سے کہیں زیادہ ان کے روایات مہمان نوازی، بہادری، روداری خوبصورت ہیں۔داریل کے بہتے پانیوں،گرتیجھرنوں اور مختلف ثقافتوں کی ایک الگ تاریخ ہے۔
عید کے دوسرے دن جب ہم نے داریل کا سفر کیا۔ہمارے گروپ میں چار علما بھی شامل تھے۔ہم 12 بجے ہوڈر گاوں سے داریل روانہ ہوے۔داریل پل کے قریب پہنچ کر ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لیا۔نماز پڑھ کر داریل کے طرف رخت سفر ہوا۔روڈ کے ساتھ داریل کے صاف ستھرا سبز ندی بہہ رہاہیاور اس کی ٹھنڈی ہوا گاڑی کی کھڑکیوں سے سفر کرنے والوں کی تھکاوٹ اور پیسنہ کو معطر بنادیتاہے۔اور سفر کرنے والیکے تھکاوٹ بدل کر قدرت کے کرشمے میں تبدیل ہوجاتیہیں۔
اس طرح آہستہ آہستہ ہم پھوگھچ پہنچ گیا تو آگے روڈ پہ ایک نوجوان کھڑا ہوکر آواز دیا (چنو مول)(چھوٹے) چچا اتنے میں بھای نے گاڑی روکا وہ نوجوان ڈرایور ساڈ پہ آکر سلام کے بعد کہا اس طرح جانا ہمارے روایت کے خلاف ہے۔ مہمان گاڑی ساڈ پہ کھڑا کرو۔ہم نے کھانا کھا کے آیاتھا اور ٹام بھی دو بجے کے قریب تھا۔ہم نے کہا بھای آپ کی دعوت کیلیے ہم واپسی میں آیں گے۔اس نے پھر وہی جملہ دوہرایا ہماری روایت نہیں ہیکہ ہم مہمانوں کو کچھ کھلاے پیالاے کے بغیر چھوڑے۔
ہم نے اس بھای کی مخلصی اور پیار بھرے الفاظ کی وجہ سے نیچے اترنے پہ مجبور ہوے۔ لکین ہم میں سے کوی اس بھای کو جانتے نہیں تھے۔ہم کمرے میں داخل ہوے تو پہلے سے کچھ مہمان تشریف فرماتھے۔ان سیعلیک سلیک کے بعد تشریف رکھ لیا۔تھوڑی گپ شپ کے بعد پتہ چلا یہ مہمان خانہ لالو کیہیں۔اور جولڑکا ہیوہ اس کا بیٹا تھا۔لالو کے ساتھ میرا پچھلے تین سال سے سوشل میڈیا کے زریعہ تعلق بناتھا۔لکین براہ راست ملاقات نہیں ہوا تھا۔اتنے میں لالو خود کمرے میں آیا دعا سلام کے بعد بیٹھ گیا۔انہوں نے ہمارے بہت اچھے مہمان نوازی کیا۔اور تقریبا دو ڈھای گھنٹہ گپ شپ کے بعد ہم نے کہا بھای ہم اگے جارہیہیں۔انہوں نے کہا اگے ایک دو دن بعد جاو۔داریل کے تاریخی مقامات اور تاریخی ایثار قدیمہ اور زمانہ قدیم کے یونیورسٹی وغیرہ پھوگھچ میں ہیں۔
لکین ہمارے زیادہ اسرار پہ انہوں نے کہا چلیں ٹھیک ہے۔لکین واپسی میں ضرور آناہے۔ہمیں بڑے عزت واحترام پیار و محبت کے ساتھ رخصت کیا۔رخصت کرتے وقت اس نوجوان کے اسم شریف پوچھا تو قادر بن لال محمد بتایا۔
سفر ایک ایسا زریعہ اس سے انسان بہت سارے حقیقتوں سے آشنا ہوجاتاہے۔گھر بیٹھے اور سوشل میڈیا کے زریعہ جو لوگوں سے خبریں پہنچتی اس سے زیادہ اور مستند معلومات خود سفر کرکے جمع کرسکتاہے۔یہاں پہ میں داریل کا مختصر سا ماضی کی تاریخ کو دھرانا ضرور سمجھتاہوں۔
قدیم زمانے سے داریل گلگت کا حصہ رہاہے۔اور یہ علاقہ شروع دن سے آزادتھے۔تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتاہے۔داریل کا قدیمی نام لیلو تھا۔بدھ مت کا مرکز بھی تصور کیا جاتاہے۔داریل پھوگھیچ میں بدھ کا ایک طویل ترین مجسمہ جس کی لمای سو فٹ تھی۔
اور بدھ مت کے ماننے والے دور دور سے زیارت کیلے آتیتھے۔پرانے بزرگوں کا یہ بھی کہنا کہ اس بدہ کو کھڑا کرنے کیلے عوام جمع ہوگ جب بدھ کھڑا کیا تو ایک طرف گرگیاجس سے ساٹھ ٠٦ کے قریب لوگ مرگے اتنا وزنی تھااس وقت بھی یہ بدھ زمین میں دفن ہیں۔اور یہاں پہ بدھ مت مزہب کی ایک بڑی یونیورسٹی بھی تھی۔اس وادی کے مختلف جگہوں کی نوادرات کے ذخار کی دریافت سے ان باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے۔داریل مختلف ادوار میں اونچ نیچ کا شکار رہاہے۔لکین یہاں کے لوگ اپنی روایات،مہمانوازی اور آزادانہ حثیت کو ہمشہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔داریل کے خوب صورت قبالی روایات اور اعلی اقدار کی وجہ سے گگت بلتستان میں ایک منفرد حثیت کا حامل علاقہ ہے۔
دیامر کے بعض علاقے اتنے خوب صورت ہیں،جہاں پہنچ کر بندہ دنگ رہ جاتیہیں۔اتنے دلفریب،دلکش اور حسین فطری نظاریکہ خواب کا گمان ہوتاہے۔اور ایسی ہی حالات میرے ساتھ ہوی،جب میں نے داریل کے دلکش مقامات کو دیکھا۔اور اس کے ساتھ ہی اپنے رب کا بہت شکر ادا کیاکہ اس نے ہمارے گلگت بلتستان کو اتنی خوب صورتی سے نوازا ہے۔
ہم بذریعہ جیپ گماری بازار پہنچے تو ہم سے پہلے حفیظ الرحمن جوکہ ہمارے دوست ہے۔وہ انتظار میں کھڑے تھے۔ہم پہنچتے ہی اس سیعلیک سلیک ہوا۔اور گاڑی سے اتر کر ہوٹل میں تشریف ہوئے۔ہوٹل میں قیام کے دوران ابوزر،ایوب،ندیم،مشیاورمحبوب سمیت دیگر دوست بھی وہاں پہ ملے وہ بھی بطور سیاح داریل گھومنے کیلیے آے تھے۔ حفیظ کے دعوت کھانے کیبعد ہم گماری سے مینکال،یشوٹ اور گبر کے طرف روانہ ہوے۔بہت مختصر مگر خوب صورت سفر جاری تھا،ہم شام چار بجے دو گھنٹے سفر کرنے کیبعد ہم مینکال پہنچ گے تو وہاں پہ جعفر اور محبوب آعظم نے دعوت دیا۔ہمارا ارادہ رات کے قیام کیلیے یشوٹ،گبر جانے کاتھا۔لکین انہوں نے کہا ابھی کافی دیر ہوگے اور ہماری طرف سے دعوت بھی ہیں صبح جایں۔
جون کے 7تاریخ ہیں۔دھوپ چمک رہی ہے لکین اس میں شدت نہیں ہے۔چلاس سے نکل کر جب گاڑی گیاڑ،پھوگیچ اور گماری ، مینکال پہنچی تو وہاں رنگوں کے بہار تھی۔سفید،گلابی،پیلے،نیلے اورنارنجی پھولوں سے درخت لدیہویتھے۔داریل مینکال دالوٹ تک پہنچتے پہنچتے میں رنگوں میں گھِر چکاتھا۔اور ہمارے گروپ ممبرز حیران ہوتے جارہیتھے کہ آخر ہمیں پہلے کیوں نہیں معلوم تھاکہ بہار میں اتنے رنگ اور ایسے موسم بھی داریل میں ہوتے ہیں۔
گیاڑ سے مینکال تک کی سڑک دونوں طرف ہری بھری اور خوب صورتی سے پھیلی ہوی تھی۔
ہم رات کو مینکال میں جعفر کے دعوت پہ رکے،رات کو داریل کے معزز بزرگ بھی بھیٹک پہ جمع ہوے تھے۔ان کے ساتھ داریل کے مختلف معروضی حالات حاضرہ پہ گفت شنید ہوی، صبح ہمیں گبر یشوٹ جانا تھا وہ صبح۔
ایک خوب صورت صبح،جب سہانی دھوپ نکلی ہوی تھی،ہم اپنے گاڑی پر مینکال سے وادی یشوٹ،گبر کے طرف روانہ ہوے۔ایک گھنٹے کیسفر کے بعد ہم یشوٹ پہنچ گے۔وہاں پہ ہمارا ملاقات بخا ولد عظیم ملکسے ملاقات ہوی،انہوں ہماری گاڑی سایڈ پہ کھڑی کردی اور انہوں نے اپنے بھیٹک کے طرف لییگیا اتفاقا وہاں بھی کچھ مہمان پہلے سے تشریف فرماتھے۔ جب ان سے گپ شپ کیا وہ بھی عید پہ گھومنے کیلیے داریل آے تھے۔ہم نے داریل کے مختلف لوگوں کے پاس مہمان رہے، لکین جس کے پاس بھی گے پہلے سے کمرے میں مہمان ضرور موجود ہوتیتھے۔
یشوٹ میں جس کمرے میں رہے وہ داریل کے مرحوم عظیم ملک کا بیٹوں کا تھا۔اس کا سونح حیات کمرے ایک کتابچے پہ لکھی تھی۔جو میں من وعن وہی سونح حیات لکھتاہوں۔۔ مختصر سوانح حیات۔۔۔ حاجی ملک عظیم خان ولدسمل خان۔۔
تاریخ پیداش 1947 مرحوم کی زندگی مختلف پیج و تاپ میں گزری، جوانی کی 15 سال آزادی میں اس کے بعد کچھ عرصہ مختلف دشمنیوں میں گزری دوران دشمنی 5 برس مفرور رہا اس کے بعد 1976 تا 1978 تک گلگت جیل میں قید رہا 29 ستمبر 1978 میں گلگت جیل سے فرار ہوکر بمع 20 نفری اپنے گھر داریل پہنچے کچھ عرصہ مفرور رہا، اس کے بعد بزریعہ جرگہ ضلع کوہستان کے مقبروں نے ساری دشمنیوں کا فیصلہ کیا۔اور حکومت کی طرف سے آزادی ملی۔اس کے بعد علاقے میں لوگوں کے درمیان بطور جرگہ داری اور صلح کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔تقریبا 20 سال اسی پیشے میں گزارے۔2001 میں دعوت الی اللہ اور تبلیغ کے راستے میں اللہ تعالی نے قبول کیا۔2001 تا 2003 مسلسل تبلیغ میں وقت گزرا۔20 نومبر 2003 رمضان شریف میں سالانہ چلیے کیلیے داریل تبلیغی مرکز سے راے ونڈ مرکز تشکیل ہوا۔سالانہ چلہ گزارنے کے بعد عالمی اجتماع کی تیاری میں رہا۔عالمی اجتماع دعا کے بعد بمعہ جماعت گھر کی طرف واپسی ہوی مورخہ 8_12_2003 کو بمقام شتیال دشمنیوں نے بیدردی سے شہید کردیا۔9_12_2003 بوقت دن 12 بجے 70 سال کی عمر میں تمام سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ان لللہ و انا الیہ راجعون**
داریل کے فطری حسن نے مجھے اپنا اسیر بنالیاتھا۔لکین وقت کی قلت کی وجہ سے ہم واپس مینکال روانہ ہوے۔جب بیاڑی کے مقام پہ پہنچے تو نوشاد سے ملاقات ہوا جوکہ ہمارا رشتہ دار بھی ہیں۔اس نے دعوت دیا اور کافی گلہ بھی کیا ہم سے ملیے بغیر کیوں یشوٹ چلیے گے۔ہم نے وقت کی کمی کی وجہ سے چلیں گے تھے۔اب ہم کوشش کررہیں کھانے کیلیے مینکال آیں کیوں مینکال میں رات کو دو تین دوستوں نے دعوت دیا ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔لکین نوشاد بھای کسی کی نہیں سنی مجبور ہم گاڑی سے اترے نوشاد بھای کے دعوت پہ رکے کھانے کے بعد ہم مینکال آے۔تین بجے کے ٹام ہماری گاڑی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوی۔۔۔۔
بلاشبہ سیاحت نہ صرف داریل بلکہ گلگت بلتستان کیلے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتاہے۔امن وامان کی بہتر صورت حال کے باعث سالانہ سینکڑوں سیاح داریل جانے کے خواہش رکھتیہیں۔
لکین یہ ہماری بدقسمتی ہیکہ ٹورزم انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سیاح ملک دیگر حصے چلیے جاتے یا مایوس ہوکر واپس چلیے جاتیہیں۔صوبای حکومت اور مقامی ممبروں کو چاہییکہ اس سلسلے میں داریل کے مقامی آرگنازیشنز کی سرپرستی کرے،علاقے کے نوجوانوں کو قسطوں پہ قرضوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی انتظام کرے۔تبھی داریل سیاحت کی انڈسٹری سے استفادہ کر سکتی ہے۔