تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی تاریخ انسانی کا ہر دور ایسے بے شمار واقعات سے بھرا پڑا ہے، جب بادشاہ وقت طاقتور لشکر وزیروں مشیروں کی فوج رکھتے ہوئے بھی بے بسی کی تصویر بنا، کسی خاک نشین کے در پر ننگے پائوں دامن مراد پھیلائے کھڑا نظر آیا، ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب بر صغیر پاک و ہند پر سلطان محمد تغلق کی حکومت جاری تھی، دہلی میں تیز موسلادھار بارش ہوئی با رش اتنی شدید تھی، کہ پرا نے اور شکستہ مکانات منہدم ہوگئے ایک مکان پرانی حویلی کی طرز پر تھا، تیز بارش نے دیواریں وغیرہ بھی گرادیں، تو کھنڈرات سے محسوس ہونے لگا کہ یہاں پر کوئی پرانا شاہی محل تھا، بارش رکنے کے بعد کوئی سرکاری اہلکار اُدھر سے گزررہا تھا، تو اُس نے ملبے کے ڈھیر پر ایک چمک دار تختی دیکھی وہ آگے، بڑھا اور اُس تختی کو اٹھا لیا، اور جاکر بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دی، تختی بہت پرانی لگ رہی تھی، اُس پر پرانی پراسرار تحریر بھی کندہ تھی، بادشاہ خود عالم فاضل شخص تھا، وہ دیر تک تختی کی عبارت پڑھنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن دیر تک پڑھنے کے بعد بھی بادشاہ عبارت کو نہ سمجھ سکا، آخر عاجزآکر بادشاہ نے آثار قدیمہ کے ماہرین کو دربا رمیں طلب کیا، اوراُن کے سامنے تختی رکھ دی اورکہا، اِس عبارت کو پڑھ کر بتائو اِس تختی پر کیا عبا رت یا پیغام لکھا ہے۔
ماہرین کئی دن تک عرق ریزی کرتے رہے آخر کار وہ اِس نتیجے پر پہنچے، کہ اِس مکان کے ملبے کے نیچے کوئی بہت بڑا خزانہ دفن ہے، ماہرین نے یہ تو بتا دیا، کہ یہاں پر کوئی خزانہ موجود ہے، لیکن وہ وسیع و عریض کھنڈر میں جگہ کی نشاندہی کرنے سے قاصر تھے، آخر بادشاہ نے حکم جاری کیا، کہ پورے کھنڈر کو کھود دیا جائے، اور خزانہ نکالا جائے اب ماہرین آثار قدیمہ نے جگہ جگہ کھدائی کر دی، لیکن خزانے کا کہیں بھی نام و نشان تک نہ تھا، آخر بہت کوشش کے بعد بادشاہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی ناکامی کا اعتراف کیا کہ نشاندہی کے بغیر سارے کھنڈر کی کھدائی کرنا بے کار ہے۔ بادشاہ کسی بھی صورت میں اِس عظیم خزانے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا، اب وہ دن رات خزانے کی سوچوں میں غرق رہنے لگا بادشاہ جب ناکامی کی حدوں تک پہنچ گیا، تو اچانک اُسے حضرت نصیر الدین چراغ کی یاد آئی تو بادشاہ پکار اُٹھا اب یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے، سلطان محمد تغلق نے فوری طو ر پر حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی کے نام رقعہ تحریر کیا حضرت ماہرین نے کھنڈر میں دفن خزانے کے بارے میں بتایا ضرور ہے، لیکن وہ اُس خاص مقام کو بتانے سے قاصر ہیں جہاں خزانہ مدفون ہے ناکام ہو کر آپ سے رجوع کر رہا ہوں، مجھ پر کرم فرماتے ہوئے کشف سے معلوم کریں، کہ خزانہ کہاں دفن ہے، تاکہ حاصل کر کے مخلوق خدا کی خدمت کی جاسکے خزانہ حاصل ہونے پر اس کا دسواں حصہ بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔
حضرت شیخ شاہی خط دیکھ کر مسکرا ئے اور فرمایا خاک نشینوں کو خزانوں سے کیا مطلب پھر شاہی خط واپس کر دیا، تو بادشاہ نے حضرت شیخ کو دوسرا خط بھی اِس تحریر کے ساتھ لکھ دیا، کہ میں اُس وقت تک درخواست کرتا رہونگا جب تک خزانہ مل نہیں جاتا۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی دوسرا خط پڑھ کر مسکرا ئے اور اپنے چہیتے لا ڈلے نوجوان مرید خاص کو اپنے پاس بلایا اور کہا جائو اور جاکر بادشاہ کی بے بسی کی زنجیریں توڑ آئو نوجوان مرید مرشد کا حکم سن کر احتراماً کھڑا ہوگیا، تو مرشد پاک نے فرمایا جائو جا کر بادشاہ کے کام کو اچھی طرح انجام دے آئو، نوجوان مرید نے احتراماً اپنا سر جھکایا اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ کھنڈر کی طرف روانہ ہوگیا، نوجوان درویش نے جاکر وسیع و عریض کھنڈر کا جائزہ لیا، تو حیران کن طور پر نوٹ کیا کہ تمام عمارت ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی، لیکن ایک کمرہ مکمل حالت میں مضبوطی سے کھڑا تھا، سرکاری کارندوں نے بتایا کہ یہ تختی اِس کمرے کے صحن سے ملی ہے درویش نے غور سے اُس پراسرار طلسماتی تختی کو پڑھا پھر اُس کمرے کے وسط میں آکر بغور جائزہ لیا، اور چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ خزانہ یہاں پر دفن ہے درویش کی بات سن کر مزدور تیزی سے چھت کی طرف لپکے تا کہ چھت کو توڑ دیں، تو درویش نے باواز اُن کو روکا اورکہا مر شد کریم کا حکم ہے کہ کام کو اچھے طریقے سے کرنا تم ساری چھت کو برباد کر دو گے پھر آپ خود سیڑھی پر چڑھے اور چھت پر گول دائرہ لگا دیا اور مزدوروں سے کہا صرف اِس جگہ کو کھو دو’ مزدوروں نے اپنا کام شروع کر دیا۔
بادشاہ کا وزیر خاص کام کی نگرانی کے لیے آیا ہوا تھا، وہ خوشگوار حیرت سے درویش کی الہامی قوت کو دیکھ رہا تھا، کہ جب ماہرین آثار قدیمہ اِس خزانے تک پہنچنے میں بُری طرح ناکام ہوگئے تھے تو یہ خاک نشین تو آسانی سے خزانے تک پہنچ گیا ہے، اور پھر جب مزدوروں نے درویش کے دائرے کو کھودا تو اچانک پوشیدہ خزانہ تیز دریا کی طرح اُبل پڑا یہ منظر دیکھ کر تمام لوگوں پر سکتہ ساطاری ہوگیا تھا، پھر جیسے ہی حواس نارمل ہوئے تو وزیر آگے بڑھا، درویش کے سامنے جھک گیا، ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے عرض کی حضرت آپ نے جہاں اتنا بڑا احسان کر دیا ہے، اب اِس پراسرار تختی کے اسرار و رموز سے بھی آگا ہ فرما دیں تاکہ میں با دشاہ کا مزید قرب حاصل کر سکوں نوجوان درویش شفیق تبسم سے گویا ہوئے جائو، تم دنیاوی با دشاہ کا قرب حاصل کرلو اور پھر اِس کو تختی کے سارے راز بتا دیے وزیر خاص اور ماہرین آثار قدیمہ عش عش کر اٹھے’ یقینا آپ ٹھیک فرما رہے ہیں درویش نے اُن کی خوشامدی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلام کیا اور مر شد کریم کی خدمت میں حاضر ہوگئے آپ کو دیکھ کر مرشد مسکرائے اور بو لے سید زادے کام کر آئے ہو’ سید زادہ جھکا مرشد کریم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بولا سرکار آپ کے صدقے کام اچھے طریقے سے کر آیا ہوں اور پھر با دشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق خزانے کا دسواں حصہ حضرت نصیر الدین چراغ کی خدمت میں بھیج دیا حضرت نے کچھ دیر ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے ڈھیر کو دیکھ اور پھر فرمایا یہ سید زادے کا حصہ ہے، جائو اُس کے مکان پر چھو ڑ آئو جب سرکار ی کارندے سونے چاندی ہیرے جواہرات کی بوریاں سید زادے کے گھر پر لائے تو بے نیاز سید زادے نے فرمایا اِس خزانے کو واپس مرشد سرکار کے در پر لے جائو، اور پھر سید زادہ مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پائوں سے لپٹ گیا زارو قطار روتے ہوئے عرض کی سرکار آپ نے جو جو کچھ مجھے عطا کر رکھا ہے، وہ اِس فقیر کے دامن میں نہیں سماتا سید زادے کا والہا نہ عشق اور تابعداری دیکھ کر مرشد کریم نے ارشاد فرمایا۔
ہر کہ مرید سید گیسو دراز شد واللہ خلاف نیت کہ او عشق باز شد
سید حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی نے خزانے سے بھری بوریاں بادشاہ کے پاس بھجوا دیں اور کہا یہ خزانہ غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیا جائے۔ نوجوان درویش کا نام حضرت مخدوم سید محمد حسینی گیسو دراز تھا، آپ کا سلسلہ نسب بائیس واسطوں سے سرتاج الانبیاء ۖ تک پہنچتا تھا، آپ کا اسم گرامی محمد کنیت ابو الفتح لقب صدر الدین ولی الاکبر صادق ہے، آپ کوعام طور پر خواجہ بندہ نواز گیسو دراز پکارا جاتا ہے، اُس زمانے میں اکثر سادات سر کے بالوں کو بڑھایا کر تے تھے، آپ کی زلفیں جوکہ خو ب دراز تھیں اِس لیے گیسو دراز کے نام سے مشہور ہو گئے 15 سال کی عمر میں ایک دن دہلی میں سلطان قطب الدین ایبک کی مسجد میں نماز پڑھنے گئے وہاں پر حضرت نصیر الدین چراغ تشریف لا ئے ہو ئے تھے، سید محمد آپ کو دیکھتے ہی فریفتہ ہوگئے ایک دن مرشد کریم پالکی میں سوار ہونے لگے تو سید محمد نے بڑھ کر پالکی اٹھا لی سید محمد کے بال چونکہ لمبے تھے، وہ پالکی میں پھنس گئے شدید تکلیف ہوئی لیکن مرشد کے ادب کے لحاظ سے زاویہ تبدیل نہ کیا کئی میل تک پالکی اٹھا کر چلتے گئے، کئی بال ٹوٹ گئے اور خون بہنا شروع ہو گیا تو سید محمد نے سارا واقعہ سنا دیا، کہ آپ کے سکون کے خاطر بالوں کو آزاد نہ کرایا، مرید کا ادب جنون عشق دیکھ کر مرشد نے پھر وہی شعر حالت جذب میں پڑھا۔ جو کوئی بھی سید گیسو دراز کا مرید ہو گیا خدا کی قسم وہ کسی اختلاف کے بغیر عشق باز ہو گیا۔