آپ نے عصر سے مغرب کے دوران درست عقائد پر ایک کتاب لکھی جو انسان کو حیران کرتی ہے کہ آیات کا بر محل اور مدلل استعمال اور وقت صرف عصر سے مغرب سبحان اللہ کیا برق رفتار تحریری انداز تھا۔
22 سال کی عمر میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا والد کے بعد انہیں جامعہ میں درس وتدریس کی خدمات سر انجام دینی تھیں٬ اُس وقت جامعہ میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا جاتا تھا٬ ٬جس میں شہر کے اشرافیہ٬ قاضی٬ اور اہل علم شریک ہوتے ٬ اس ضیافت میں انہوں نے پہلا درس “”بسمہ اللہ”” پر دیا٬ کیا کیا نقاط کس فہم و فراست سے بیان کئے سبحان اللہ ٬ علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا سننے والوں پر گویا سکتہ طاری تھا اہل علم محفل میں تھے وہ ان کی فصاحت و بلاغت پر انگشت بدنداں رہ گئے۔
اس دور کے چوٹی کے تین آئمہ ان کے شاگرد تھے ٬ آپ دارالحدیث کے شیخ بھی رہے امام ابن تیمیہ کی بچپن سے قوت حافظہ قابل رشک تھی٬ ان کے والد کی وفات کے بعد لوگ کثرت سے انکے درس میں آتے امام ابن القیم جوزی”” بے شمار کتابوں کےخالق ٬ وہ جیل میں اپنے بیٹے کے ساتھ 21 سال تک آپ کے ساتھ رہے٬ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا٬ ابن کثیر جن کی تفسیر کوبین القوامی شہرت ملی٬ ہر سوچ کا حامل انسان اس تفسیر سے مستفید ہوتا ہے٬ وہ بھی ہمراہ تھے٬ ان کے علاوہ نامور نام امام ظہبی حافظ ابن الھادی وغیرہ بھی ان کے شاگرد تھے۔
امام ابن تیمیہ نے ساری عمر علم کیلیۓ وقف کی اسی لئے شادی نہیں کی٬ اپنے رب سے محبت کا انوکھا اظہار تھا اور اس کے نبیﷺ کی سنت سے ٬ انہوں نے کوئی دینی منصب قبول نہیں کیا نہ انتظامی ذمہ داری لی کہ کہیں یہ علمی کاموں میں مداخلت کا باعث نہ بنیں٬ عمر بھر قرآن پاک کے ذکر اور درس و ارشاد وعظ و تصنیف میں مشغول رہتے تھے ٬ قیامت تک ایسے لوگ ہر وقت ہمارے معاشرے میں ضرور ہونے چاہیے تا کہ جہالت کی تاریکی دور کی جاسکے٬ علم کی نور کی قرآن کی روشنی پھیلتی رہے٬ اسلام ہر ایک سے ایسا تقاضہ نہیں کرتا مگر جس کے اندر اہلیت ہو علم کی جستجو ہو تو اسے ضرور امام ابن تیمیہ کی طرح خود کو وقف کرنا چاہیے٬ تا کہ ہدایت اور حق کی راہیں اسلام سے دور رہنے والوں کیلئے کشادہ ہوں۔
ہم آگے جا کر دیکھیں گے کہ ایسے اللہ والے دنیا سے جتنا دور ہوتے ہیں اس پراللہ کا شکر حضرت یوسفؑ کی طرح ادا کرتے ہیں٬ ایسے لوگوں کیلیۓ تنہائی خاموشی اور قید کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی جو ان کو رب کے اور قریب اور قریب لے آتی ہے اور اس تنہائی میں ان پر اپنے رب کے وہ راز منکشف ہوتے ہیں۔
جو ان کے ہم عصر عالموں کو نصیب نہیں تھے ٬ یہ اعلیٰ مراتب دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ہوتے٬ لوگ کسی کی تعریف نہیں سنتے خاص طور سے اگر کسی کو دوسروں سے نمایاں کیا جائے٬ کسی کا نام بار بار لیا جائے تو بے وجہ ہی ضد پیدا ہو جاتی ہے ماحول خراب ہوتا ہے کہ آخر اس کی تعریف کیوں؟ انسانوں پر کسی کی تعریف گراں گزرتی ہے٬ یہ نفس پر بھاری ہے٬ ایسا ہی ان کے ساتھ ہوا حسد کی وجہ سے انہیں مستقل دباؤ میں رکھا جاتا تھا۔
اللہ پاک نے جہاں آپ کو عزت اور مقام دیا وہاں دشمنوں کی تعداد بڑھ گئی٬ آپ نے اس دور کے باطل نظریات کو رگیدا ٬ آپ نے فلسفے کے خلاف دیگر دینی مختلف نظریات پر فتویٰ دیے٬ صفات الہیٰ پر فتویٰ دیا بہت سے گروہوں نے آپ کے خلاف علم بلند کیا امام ابن تیمیہ تاتاریوں کی شکست کے بعد اپنا زیادہ وقت قرآن کے مطالعے میں گزارنے لگے٬ جب آپ نے ان کا عقیدہ لوگوں میں کھول کر بیان کیا٬ ابن عربی کے پیروکار آپ کے شدید مخالف ہو گئے۔
ان کے عقائد کے خلاف بولنا انہیں برداشت نہ ہوا علاقے میں “” ابن عربی”” کے پیرو کار کا اثر بڑہتا جا رہا ہے٬ لوگوں نے نے سلطان مصر سے شکایت کر کے آپکو قید کروا دیا آپ 18 ماہ تک جیل میں رہے ٬ جیل میں ہر قسم کی آزادی تھی ٬ لکھنا لکھانا چلتا رہا٬ لوگ آزادانہ ملاقات کرنے آتے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
لوگ جیل آتے اور فتوےٰ لیتے تعلیم لیتے٬ آپ ایک طرح سے نظر بند تھے قید میں کوئی تنگی نہیں تھی٬ 18 ماہ کے بعد ایک مصری شہری “” امیر ابن عیسیٰ”” کی سفارش پر آپ رہا ہوئے ٬ آپ رہا ہونے کے بعد مصر میں ہی قیام پزیر رہے آپ نے دیکھا کہ یہاں باطل نظریات مسلسل پھیل رہے ہیں اور کوئی ان کا توڑ نہیں کر رہا ٬ آپ نے ہار نہیں مانی اور اپنے ہروعظ میں ان نظریات کا “” رد “”کرتے رہے۔
آپ کے پُر اثر خطبات سن کر لوگ متاثر ہونے لگے اس بات سے مشتعل ہو کر مخالفین نے پھرمصر کے سلطان سے شکایت کی٬ اس نے ایک سال کیلئے آپکو قید کر دیا ٬ ایک سال کے بعد اس نے خود ہی یہ سوچ کر رہا کر دیا کہ ان کا جرم کچھ نہیں شکایت ایک گروہ کی طرف سے نفرت یا حسد کی وجہ ہے٬ اس کے بعد آپ دمشق آئے تو آپ کے ایک فتویٰ پر مخالفین نے طوفان کھڑا کردیا٬ آپ نے “” قبر اور سفر”” پر ایک فتویٰ دیا جسے ایک گروہ نے توہینِ رسالت کہ کر آپ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
توہین رسالت کے جرم میں آپکو قلعے میں قید کیا گیا ٬ پھر دوران اسیری ہی آپ کا انتقال ہوا٬ اس بار قید سخت تھی ٬ ہر قسم کی پابندی تھی ٬ آپ سے قلم٬ دوات٬ کاغذ ہر چیز چھین لی گئی تھی ٬ مگر اللہ نے ان کا سینہ قرآن سے روشن کر رکھا تھا٬ لہٰذا آپ ہر وقت قرآن کے ذکر میں مشغول رہتے٬ ان مصائب کا آپ کے طرز زندگی پر کوئی اثر کسی کو دکھائی نہیں دیا٬ جاری ہے