تحریر : محمد آصف اقبال تاریخ سے ثابت ہے کہ زندہ قومیں مختلف ادوار میں مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہیں۔لیکن باقی ، زندہ و تابندہ وہی رہتی ہیں جن کی بنیادیں پختہ ہوں نیز ان کے علمبردار اپنی بنیادوں سے فکری و نظریاتی اور عملی سطح پر چمٹے رہیں۔باالفاظ دیگرعروج و زوال قوموں کا ایک طے شدہ عمل ہے اور یہی عمل اس کے تاب ناک اور درخشاں مستقبل کا وصف بھی ہے۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ قوم اپنی جڑوں سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہے۔لیکن وہ اقوام جن کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں یا جو اوپری سطح پے ہی گردش ایام میں مبتلا ہوجا تی ہیںایسی اقوام رائج الوقت افکار و نظریات سے متاثرہوتی ہیں۔نتیجہ میں وہ پے درپے پستی میں مبتلا ہوتی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ اُس کے زوال کا پروانہ روانہ کر دیا جاتا ہے اور وہ دنیا سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔قوموں کے عروج وزوال میں اس بات کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے کہ مخصوص قوم کا مذہب کیا ہے ؟اور مذہبی عقائد دنیا و آخرت کے تعلق سے کیا نظریہ پیش کرتے ہیں؟کیونکہ ہر دور میں انسان کسی نہ کسی طریقہ سے مذہب سے وابستہ رہا ہے۔اس کے باوجود جو لوگ مذہب کے باغی ہیں یا مذہب کو افیون کہتے ہیں،ان کے بھی معاشرتی معاملات اور رسم و رواج مخصوص مذہبی بنیادوں پر ہی استوار ہوتے ہیں۔اس لیے کسی صورت یہ قبول نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی شخص مذہب سے دور ہے یا کسی نہ کسی حد تک مخصوص مذہب کو اختیار کیے ہوئے نہیں ہے۔لہذا ہرشخص مذہب سے وابستہ ہے اورمخصوص مذہب کا عکس اس کے افکار و نظریات اور زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں کہیں نہ کہیں ضرور جھلکتا ہے۔گفتگو کے پس منظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ قوموں کا عروج و زوال بھی مذہبی عقائد ہی کی بنیاد پے ہوتا ہے۔کہیں کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے دیگر اقوام کے لوگوں کوبطور چیلنج سامنے لایا جاتا ہے تو کہیں قوم کو عروج بخش کے اس کے لیے چیلنج کھڑے کردیے جاتے ہیں۔اس کی زندہ مثال مسلمان ہیں جو روز اول سے آج تک ان حالات سے دوچارہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔یہاں تک کہ وہ نشانیاں ظاہر ہو جائیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بساط لپیٹنے کے تعلق سے قرآن و حدیث میں بیان کی ہیں۔
مختلف اقوام کے زوال کے واقعات کو جب درج کیا جاتا ہے تو ان میں مخصوص وقت میں رائج بے شمار غلطیوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔اس کے باوجود ان بے شمار غلطیوں اور غلط ریوں میں چند بڑی غلطیاں قوم کے زوال کا اصل سبب بنتی ہیں۔جس میں پہلی غلطی زندگی کے مختلف ادوار میں اخلاقی پستی ہے تو دوسری تشدد اور خوف کا ماحول ہے۔لہذااِن غلطیوں میں جو قوم بھی مبتلا ہوتی ہے وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔دور جدید میں مغربی قوم پرستی کو دنیا کے بیشترممالک نے اختیار کر لیا ہے۔جس کے بارے میں بیسویں صدی کے تین عظیم مورخوں میں سے ایک ٹوائن بی نے کہا ہے کہ مغربی تہذیب زوال پذیر ہے اور اس کی موت یقینی ہے۔ البتہ ان کے نزدیک اگر مغربی تہذیب دو کام کرلے تو وہ موت سے بچ سکتی ہے۔ پہلا کام یہ ہے کہ مغربی تہذیب اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کی روحانیت پیدا کرلے اور دوسرا یہ کہ وہ ٹیکنالوجی کے عشق سے اپنی جان چھڑالے۔برخلاف اس کے دور جدید میں مسلمانوں کے زوال کے تذکرے کرنے والے کہتے ہیں کہ مسلمان چونکہ فلسفے اور سائنس سے دورہیں لہذا وہ زوال پذیری کی جانب تیزی سے گامزن ہیں۔لیکن ٹوائن بی کا کہنا ہے کہ مغرب کا ،لادین فلسفہ اور ٹیکنالوجی کا عشق اُس کے زوال کا اصل سبب ہے۔ ایلون ٹوفلر مغرب کے بڑے ماہر عمرانیات ہیں اور ان کی کتابFuture Shockدنیا کی تین درجن زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے۔ ایلون ٹوفلر نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جدید مغربی تہذیب ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ بحران میں مبتلا ہے۔ البتہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اُسے اِس بحران سے نکالیں گی۔
اس سلسلے میں پال کینڈی کی رائے بھی اہم ہے۔ پال کینڈی امریکا کا اہم مورخ ہے۔ انہوں نے بڑی طاقتوں کے عروج زوال کے تجزبے سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ اور امریکا دونوں کے زوال کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ ان عالمی طاقتوں نے خود کو بہت پھیلا لیا اور ان کے اخراجات ان کی آمدنی سے بہت زیادہ ہوگئے۔ اس پوری گفتگو میں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ اخلاقی زوال ہی کسی قوم کی پستی کا اہم ترین سبب ہے۔موجودہ دور میں اخلاقی زوال نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ٹیکنالوجی کا سہارا لیا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔لیکن یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال خود اپنے آپ میں برا نہیں ہے۔شرط یہ ہے کہ اس کے منفی استعمال سے قوم کا ہر فرد اور فی نفسہ قوم پرہیزکرے۔منفی استعمال میں اخلاقی پستی سے لے کرتشدد اور ظلم و زیادتیاں اور استحصال سب کچھ شامل ہے۔
موجودہ دور میں اگر ہندوستانی مسلمانوں کی بات کی جائے تو آزاد ہندوستان میں مختلف ادوار میں بے شمار مراحل اور مسائل سے وہ دوچار ہوتے رہے ہیں۔ان مراحل و مسائل نے جہاں انہیں ایک نئی رمق اور روشنی دی ہے وہیں وہ اُس خواب خرگوش سے بھی وقتاً فوقتاً باہر آتے رہے ہیں جن میں وہ اب تک مبتلاتھے۔یہاں تک کہ ایک بڑا مرحلہ اورسانحہ اس وقت درپیش آیا جب 6دسمبر1992میں بابری مسجد شہید ہوئی۔یہ6دسمبر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے انہیں اس بات پے سوچنے پر مجبور کیا کہ بدلتے ہندوستان میں انہیں کون سی نئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟عوام چونکہ ہر دور میں غیر منظم ہوتے ہیں لہذا اُن کے لیے یہ لفظ ‘حکمت عملی’ہمیشہ غیر شناسا رہا ہے۔اس کے باوجود چند مسلم جماعتوں نے شعوری و غیر شعوری ہر دو اعتبار سے نئے حالات میں نئی حکمت عملی کی جانب قدم تو بڑھایا لیکن گزشتہ 20سال میں کوئی ٹھوس اقدام ایسا نہیں ہے جس کا تذکرہ کیا جائے۔برخلاف اس کے غیر منظم افراد امت میں اسلامی تعلیمات سے وابستگی کا رجحان سامنے آیا ہے۔ساتھ ہی اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد گزشتہ دودہائیوںمیں سابقہ کے مقابلہ کچھ زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس کی شہادت وہ مساجدہیں جو ایک زمانے میں عموماً خالی رہا کرتی تھیں یا اِن میں وہ لوگ قدرے زیادہ نظر آتے تھے جو زندگی کی جولانیوں سے عموما لطف اندوز ہوچکے تھے۔
دوسری جانب اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کا رجحان بھی بڑھا ہے ۔نتیجہ میں علمی بحث و مباحثوں میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن اس کا افسوسناک پہلو جو واضح طور پر سامنے آرہا ہے وہ ان علمی مباحث،مجالس اور تعلیمات کا عملی رویوں میں اظہارکا فقدان ہے۔ساتھ ہی سیاسی و سماجی ارتقائی محاذ وں پر بھی مسلمان انفرادی و اجتماعی ہر دوسطح پر غور و فکر کرتے نظر آتے ہیں ۔اس صورتحال میں موجودہ ہندوستان میں اور خصوصاً برسراقتدار حکومت و نظریہ کے حاملین نے مسلمانوں کے لیے نئے چیلنجز بھی پیش کیے ہیں اورمزید کی توقع ہے۔اِنہیں چیلنجز میں ایک اہم چیلنج مسلمانوں کی شناخت کا ہے۔جس کا آغاز و اختتام ان کے عائلی و معاشرتی نظام سے ہے۔دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کا پرنسل لا،جو انہیں ایک مخصوص شناخت فراہم کرتا ہے،اس پے اٹھائے جانے والے سوالات و اقدامات ہیں۔گرچہ حالات دشوار کن ہیں اس کے باوجود ان حالات میں ہمیں پوری توقع ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور امت اگر اپنی بنیادوں پر ایک بار پھر قائم ہو جائیں جہاں ان میں اخلاقی برتری بھی ظاہر ہو اورعلمی ترقی کے ساتھ عملی رویوں میں بھی بہتری آئے تویہی آزمائشیں کل اُن کے درخشاں و تابناک مستقبل کا ذریعہ بن جائیں گی،ان شاء اللہ!