1400ء میں ملکہ الزبتھ اوّل نے برطانیہ کے تاجروں کو تجارتی اجازت نامے جاری کیے تو بہت سے انگریز ہندوستان میں داخل ہوئے اور جب تجارت میں وسعت آئی تو اشتہار بازی کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔اس غرض سے 1768ء میں کونسل ہائوس کے دروازے اور شہر کے دوسرے اہم مقامات پرگاہکوں کی توجہ مبذول کرنے کے لیے اشتہارات آویزاں کیے گئے۔اس کے بارہ سال بعد1780ء سے لے کر 1787ء تک کئی اخبارات منظر عام پر آگئے۔29 جنوری1780ء میں بنگال گزٹ شائع ہوا جو کہ برصغیر کا پہلا اخبار تھا۔
برصغیر میں اخبارات بادشاہوں کو حالات سے با خبر رکھنے کے لیے لکھے جاتے تھے۔دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے نمائندگان ان خبروں کو لکھ لیتے اور اپنے علاقوں میں جا کر اپنے آقائوں کو مطلع کرتے۔طباعت کا کام برصغیر میں 1674ء میں شروع ہوا جب برصغیر میں پہلا چھاپہ خانہ لگا۔برصغیر کا پہلا مطبوعہ اخبار “بکی گزٹ” 1780ء میں جیمز آگسٹس بکی نے کلکتہ سے جاری کیا۔اٹھارہویں صدی میں درجنوں اخبار کلکتہ،بمبئی اور مدراس (چنائی) سے جاری ہوئے لیکن ان میں روزنامہ کوئی بھی نہیں تھا اور زبان بھی انگریزی تھی۔اس زمانے میں کوئی صحافتی قانون بھی موجود نہیں تھا۔1822ء میں کلکتہ ہی سے اردو کا پہلا اخبار”جام جہاں نما”منشی سدا سکھ کی ادارت میں شروع ہوا اور اسی سال فارسی کا پہلا اخبار”مراةالاخبار” نکلا جس کے مدیر راجا رام موہن رائے تھے۔
اردو صحافت کی اصل تاریخ کا آغاز1836ء سے ہوتا ہے جب مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی باقر حسین نے “دہلی اردو اخبار”کے نام سے پرچہ جاری کیا۔اسی دور میں لیتھو سے چھپائی کا سلسلہ شروع ہوا۔دہلی سے اس زمانے میں متعدد اخبارات نکلے جن میں “دہلی اردو اخبار” اورسر سید احمد خان کے بھائی سید محمد خان کی ادارت میں نکالا جانے والا اخبار “سید الاخبار”قابل ذکر ہیں۔لاہور سے اردو کا پہلا اخبار “کوہ نور”منشی ہر سکھ رائے کی ادارت میں نکلاجو نصف صدی تک جاری رہا،یہ ہفت روزہ تھا۔ان دنوں میں لاہور سے “دریائے نور” بھی نکلااور ساتھ ساتھ سیالکوٹ اور ملتان سے بھی اخبارات کی شکل میں صحافت کا آغاز ہوا۔
برصغیر میں باقاعدہ صحافت کا آغاز قلمی اخبارات سے ہوا۔مغلیہ دور میں یہ کام مخصوص لوگ سرانجام دیتے تھے۔انہی اخبارات کے زریعے حکمران لوگوں کے حالات سے واقف ہوتے اور اپنے احکامات بھی جاری کرتے تھے۔وہ انہی اخبارات کو پڑھ کر اندازہ لگاتے تھے کہ کون کون لوگ ملکی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ ہیں اور کون لوگ ہیں جو ملک کے خلا ف سازشیں کرتے ہیں یا سازشوں میں شریک ہیں۔ایسے افراد کی نشاندہی ہونے پر سخت سزائیں دی جاتیں،غداروں کو معزول کر کے سزائیں دی جاتیں۔سلاطین دہلی کے دور میں یہ طریقہ کار بہت مستحکم بنیادوں پر نافذ ہوا لیکن مغلوں نے صحیح معنوں میںاس کی پذیرائی کی۔پیغام رسانی کا ذیادہ تر کام گھوڑوں سے یا پیدل کیا جاتا تاہم ڈاک کو دارلحکومت پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام موجود تھا۔ابن بطوطہ جب ہندوستان آیا تو ہندوستان کے ڈاک پہنچانے کے نظام کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔
ہندوستان سے جاری ہونے والے انگریزی اخباروں میں بکی گزٹ کے بعد دوسرا ہفت روزہ اخبار”پرکارو”تھا جو 1793ء میں شائع ہوا۔تیسرا ہفت روزہ اخبار1795ء میں اور اسی سال چوتھا اخبار “انڈیا ہیرالڈ” کے نام سے شائع ہوا۔1789 ء میں بمبئی سے”بمبئی ہیرالڈ” جاری ہوا۔1790ء میں” بمبئی کواپر” نکلا۔اس کے بعد بمبئی سے “بمبئی گزٹ” اور “بمبئی ابزرور” شائع ہوئے۔1795ء میں “بنگال جرنل” کے نام سے کلکتہ سے ہفت روزہ شروع ہوا جس کا بانی ولیم ڈوآن تھا جو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والا پہلا صحافی تھا۔اس کا اخبار بند کر دیا گیا اور اسے ملک بدری کی سزا بھی ملی۔اس نے اپنی ایک اور اخبار “انڈین والڈ” میں بھی حکومتی تنقید جاری رکھی۔ہندوستان میں اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار 1822ء میں “جام جہاں نما” کے نام سے شائع ہوا۔
کہا جا سکتا ہے کہ صحافت کی ابتدا “جام جہاں نما” سے ہوئی لیکن صحیح معنوں میں صحافت کا آغاز مولوی باقر حسین کے “دہلی اردو اخبار” سے ہی ہوا۔جب اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملا تو صحافت کو بہت فروغ ملا۔دہلی سے “صادق الاخبار” شائع ہوا تو مولوی کریم دین نے “کریم اخبار” نام سے اخبار جاری کیا۔1850ء میں “دریائے نور” جاری ہوا جس نے حکومت پر کافی تنقید کی۔انیسویں صدی کے آخر میں “اخبار عام” اور “پیسہ اخبار” نے شہرت حاصل کی۔روزنامہ صحافت کو بیسویں صدی میں کافی ترقی ملی۔مولانا ظفر علی خان نے “زمیندار” جاری کیا۔”اردو معلّیٰ” مولانا حسرت موہانی نے جاری کیا۔مولانا عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر کے “انقلاب” نے خوب ترقی کی۔اسی طرح “الہلال”،”کامریڈ” اور “ہمدرد” نے مسلمانان برصغیر میں سیاسی شعور پیدا کیا اور تحریک آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔صحافت کا یہ سفر آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور اس وقت درجنوں بڑے چھوٹے اخبارات صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل