تحریر : سلطان حسین وہ ایک بااختیار بادشاہ تھا ملک کے پورے خزانے پر اس کا اختیار تھا لیکن اس کے باوجود خزانے سے وہ ایک پیسہ نہیں لے رہا تھا اس کے گھر کی گزر اوقات مال غنیمت پر ہوتی یا اپنے کسی کام کی اجرت پر ہوتی گھر میں تنگی ترشی رہتی جس کی وجہ سے ان کی بیوی کو ہر وقت تنگی کی شکایت رہتی ایک دن اس نے اپنے شوہر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مصر اور شام کا علاقہ آپ کے زیرنگین ہے اور گھر کا یہ عالم ہے کہ اس میں آسودگی کا نام و نشان تک نہیں”بادشادہ نے اپنی ملکہ کی بات تحمل سے سنی جب ملکہ کی بات ختم ہوئی توجواب دیا ”بیگم خزانہ رعایاکا ہے اور مجھے اس کی چوکیداری پر متعین کیا گیا ہے میں اس خزانے کا مالک نہیں اس کا نگراںاور محافظ ہو ںکیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری خوشی اور گھر کی آسودگی کے لیے خیانت اور بدیانتی کرکے اپنے لیے جہنم میں ٹھکانہ بنالوں؟”بادشادہ کی بیوی کو اپنے شوہر کے اس جواب سے بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ دیر تک ندامت سے آنسو بہاتی رہی۔
اس بادشادہ کی یہ بات اور ان کے اس کردار کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا آج بھی جب دنیا تاریخ دیکھتی ہے تو ان کے اس کردار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے یہ بادشاہ کون تھا آپ اگر تھوڑا ذہن پر زور دیں توآپ کوان کا نام آپ کے ذہن میں آجائے گا یاد آیا نہیں توچلیں ہم آپ کا زیادہ امتحان نہیں لیتے بتائے دیتے ہیں یہ بادشادہ نورالدین زنگی تھاوہ فروری 1118 میں پیدا ہوئے 1146 میں اپنے بادشاہ باپ عماد الدین زنگی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ان کا مکمل نام المالک العادل نور الدین ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی تھا اس نے 15مئی 1174 تک 28 سال مصرو شام پربلاشرکت غیرے حکومت کی حشاشین نے اسے زہر دیاجس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا ہو گئی جو ان کی موت کا باعث بنی انتقال کے وقت ان کی عمر 58سال تھی اس بادشاہ نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا فتوحات اور کارناموں کے علاوہ ان کے رفاہ عامہ اور فلاحی کام بھی بہت زیادہ ہیں نور الدین صرف ایک فاتح نہیں بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔
اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیاتھا۔ ان کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے انہوں نے بیت المال کا روپیہ کبھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس بادشاہ نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا پیسہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کیا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے کا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔
نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردئیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھاان کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا۔ وہ ایک وسیع خطے کے حکمران تھے اس قدر وسیع سلطنت کے خزانے میںزر وجوہرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اتنے بڑے ملک پر ایک بادشاہ حکمران ہو تو اس کااپنا ایک جاو جلال ہوتاہے ایسے ملک کے باشادہ سے کوئی یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیں کرسکتا ہے کہ وہ خزانے کواپنے مصرف میں نہیں لاسکتا۔وہ خیانت اور بدیانتی سے ڈرتا تھا اور بادشادہ ہونے کے باوجود ان کی قناحت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی گزر اوقات کے لیے خود اپنے ہاتھ سے کام کرکے پیسے کماتا تھا خزانے سے کوئی وظیفہ نہیں لیتا تھا حالانکہ اسے یہ حق حاصل تھا اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ان مثالوں کو جب ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا دامن تہی دست نظر آتا ہے جو کردار ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے اور ان کا جو کردار رہا ہے ہم میں اس کا ذرا بھر بھی نظر نہیں آرہا ہمارے اسلاف کے چھوڑے ہوئے کردار اور ان کی مثالوں پر ہم نہیں بلکہ اس پر آج کے زمانے میں مغرب عمل کر رہا ہے۔
Corrupt Rulers
ہم اگر اسلامی دنیا کی بجائے صرف اپنے ملک پر ہی ایک نظر ڈالیں تو1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ان ستر سالوں میں کسی ایک بھی حکمران کی مثال ہم نہیں دے سکتے نہ ہی کسی حکمران کے کردار کو مثالی قرار دے سکتے ہیں سواء قائداعظم کے ۔مسلمانوں کے لیے اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں ہمارے حکمرانوں نے اسلام کے کسی ایک بھی اصول پر عمل نہیں کیا جو بھی آیا اس نے جائز و ناجائز ہر طریقے سے صرف اپنے اقتدار کو دوام دیا’ اپنے اثاثے بنائے اور اپنے مفادات کا خیال کیا کسی نے اسلام کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا کسی نے قوم پرستی کا پروپیگنڈا کرکے اپنا الو سیدھا کیا کوئی سوشلزم کی آڑ لے کے آگے بڑھا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا فریب دے کر اپنا مطلب نکالا غرض جو بھی آیا کسی نے جاگیر میں اضافہ کیا کسی نے کارخانوں کی چین بنا ڈالی کوئی بیرون ملک فلیٹ خریدنے میں لگا رہا کسی نے سرئے محل اپنے نام کرلیے ‘کسی نے آف شور کمپنیاں بنا ڈالیں اور کوئی پانامہ لیکس کا شکار ہوگیا کوئی ملائیشیا میں ہوٹل بنا رہا ہے کسی نے دبئی میں ٹاور بنا لیے کوئی بنگلہ دیش میں فیکٹریاں بنا رہا ہے ‘کسی نے بھارت میں کارخانے کھول لیے جو باقی رہ گئے انہوں نے سوئس بینکوں کو بھرنا شروع کر دیا۔
دعوے سب ملک و قوم کی خدمت کے کرتے ہیں لیکن وہ صرف اپنی ہی خدمت کرتے ہیں وہ ہم پر اقتدار کے لیے پیدا ہوئے ہیں ہم ان کی غلامی کے لیے (اور شاہد وولٹیئر نے ہماری جیسی قوم کے لیے ہی یہ کہا ہے کہ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں )ہم شاہد وولٹیئرکے انہی بے وقوفوں میں شامل ہیں اسی لیے ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھانے کے لیے اور زندہ باداور مردوہ باد میں لگے ہوئے ہیں ہر پانچ سال بعد ہم عہد کرتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں سے اس بار نجات حاصل کریں گے لیکن پھر انہی کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں انہیں کامیاب کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہم پر مسلط ہوتے ہیں پھر فریاد بھی کرنے لگتے ہیں دنیا چاند پر پہنچ گئی اور اب مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے لوگ مریخ پر جانے کے لیے ابھی سے ”بکنگ ” کررہے ہیں جبکہ ہم آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور ہمارے حکمران ہمیں2018 تک ان اندھیروں سے نکالنے کی ”خوشخبری” سنا رہے ہیں جس کو ہمارے حکمران خوشخبری قرار دے رہے ہیں اس پر ہمیں ماتم کرنا چاہیے تھا لیکن ہم پھر بھی خوش ہوررہے ہیں بغلیں بجا رہے ہیں اندھیروں سے نکلنے کی امید پر آس لگائے بیٹھے ہیں۔
کام کرنے والوں نے پوری دنیا کو ایک چھوٹی سی گھڑی میں بند کر دیا لیکن ہم آج بھی صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں ‘بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے ترستے ہیں ‘ہسپتال جاتے ہیں تو سہولیات کے لیے ترستے ہیں’ہم آج بھی کٹارہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جہاں رہتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں ‘شعور نام کی شے نہیں ہم میں ۔ حکمران تعلیم عام کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملاََ وہ اس کے برعکس اقدامات اٹھاتے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدار نہ ہو کیونکہ اگر لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو پھر ان کی چودھراہٹ کہاں رہے گی ‘ان کے در پر حاضری کون دے گا انہیں عام لوگوں کی تعلیم سے کیا غرض کیونکہ ان کے بچے لندن اور امریکہ میں پڑھتے ہیں عام لوگوں کو تعلیم کے ذریعے شعور دیکر وہ لوگوں کو حقیرسمجھ کر غرور و تکبر کس طرح کریں گے آج ہم جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال سارے بادشاہوں اور شہنشاہوں والے ہیں اور انہی بادشاہوں اور شہنشاہوں کے سارے رشتہ دار وزارتوں اور اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں انہی کے لیے سارے حکومتی وسائل مختص ہوتے ہیں اسی لیے فاروق قیصر کہتے ہیں ”یہ وطن تمہارا ہے تم ہو سیاستدان اس کے۔ جاگیر تمہاری ہے تم ہو پاسباں اس کے۔ اس زمین کے نقشے پہ قبضہ بھی تمہارا ہے ۔جو بینک نے معاف کیا وہ قرضہ بھی تمہارا ہے ۔یہ عوام تو بے بس ہیں تم غلام انہیں سمجھو۔جاگیر عطا کی ہے انگریز نے یہ تم کو ۔اس طرف خوشحالی ہے تم ہو درمیاں اس کے”۔آج اس ملک کی یہ حالت ہے کہ حکمرانوں کی وجہ سے ہمارے سارے سیاستدان کرپٹ اور اس کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے۔ آج اس ملک میں نام نہاد مولوی لڑائیاں کررہے ہیں اور فرقے بنا رہے ہیں۔
جاہل دین سکھا رہے ہیں غیر ملکی جاسوس مسجدوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہم بڑی معصومیت سے انہیں اپنا رہبر سمجھ رہے ہیں پوپ اسٹارز تبلیغ کررہے ہیں۔ کھلاڑی سیاست کررہے ہیں وکیل پولیس کو پھینٹی لگا رہے ہیں ماڈلز اسمگلنگ کررہی ہیں اور اسمگلرعمرے کررہے ہیں فوج ملک چلا رہی ہے اور حکمران اور سیاستدان کاروبار چلا رہے ہیں اور عوام بے چارے حسرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں ہمارے اسلاف ہمارے لیے اپنے کردار کی تاریخ چھوڑ رہے تھے اور ہمارے حکمران سیاستدان اور رہنمائی کا دعوی کرنے والوں کے علاوہ نام نہاد مذہبی پیشوا خود تاریخ بنا رہے ہیں بلکہ تاریخ کو تاریک کررہے ہیں وہ جو تاریخ بنا رہے ہیں شاہد ہی آئندہ نسلیں انہیں خراج تحسین پیش کریں بلکہ شنید ہے کہ وہ اس موجودہ نسل کو ہی گالیاں دیںا گر ہم نے ان گالیوں سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔