ایک آواز کئی روز سے میری سماعتوں پر دستک دے رہی ہے یہ آواز ننھی منی کلی تیرہ سالہ عبیرہ کی ہے جسے دنیا کی مہذب امریکی قوم سے تعلق رکھنے والے چار فوجی درندوں نے عراقی سر زمین پر اپنے ایک دل پسند کھیل کا میدان بنایا اور اسکے معصوم جسم کو اس طرح اُدھیڑ کر پھینک دیا جیسے تیز رفتار کھیل ہاکی یا فٹ بال کے دوران آسٹرو ٹوف کے ٹکڑے اُڑ جاتے ہیں میری سماعت پر اُن معصوم بچوں کی چیخیں مسلسل ہتھوڑے برسا رہی ہیں جو عراق کے ایک سکول مدرسہ القاعد میں زیر تعلیم تھے اور وہاں پر ناجائز قابض امریکیوں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر کے انہیں ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دیا۔
اِن درندوں نے فائرنگ کے بعد علاقہ کی نا کہ بندی کردی اور جائے وقوعہ پر ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نہ آنے دیا ان معصوموں کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایک روز قبل امریکی فوجیوں سے اپنا سکول خالی کرنے کی التجا کی تھی کہ ہمارے سکول کو بیس کیمپ نہ بنایا جائے۔
مجھے 10 جون 2003 کو امریکی فوجیوں کی اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی عراق کی یتیم اور لاوارث زینب کی کہانی نہیں بھولتی اپنی درد ناک داستان سناتے سناتے جس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا اُس کے دریدہ کپڑوں پر گرنے لگا تھا اور ہچکیوں کے دوران جس نے بولنے کی ہمت پیدا کرنے کیلئے چیخ مار کر ایک مغربی صحافی عورت سے پوچھا تھا کہ میرا گناہ کیا ہے ؟کیا جرم کیا ہے میں نے؟ میں اس وقت پوری آواز کے ساتھ چیخی چلائی تھی اور قریب کھڑے امریکیوں سے بچانے کیلئے رو رو کر فریاد کی لیکن میری مدد کیلئے کوئی نہیں آیا جنہیں مدد کیلئے پکارا وہ بھی میرے جسم کو کتوں کی طرح بھنبوڑتے رہے، میرے ساتھ زیادتی کا وحشت ناک تماشہ دیکھتے رہے۔
American soldiers Rape
تاریخ کی گواہی اپنی سچائی کو عصرِ حاضر کے اوراق پر ثبت کر کے رہتی ہے قصرِ سفید کے مکینو سنو! تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم مہذب ہیں ،تم یہ بھی کہتے ہو کہ کرہئِ ارض کے باسیوں نے اگر تہذیب سیکھنی ہے تو ہمارے قدموں کے نشانات پر اپنی جبینِ نیاز جھکائیں ،مخلوق کے حقوق کا تحفظ ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا، ہمارا ہر لفظ تاریخ کا زریں باب ہے، جس نے خود کو معزز و معتبر کہلوانا ہے وہ ہمارے اقوال اور افعال کی پیروی کرے۔
تمہارے اس فلسفے کو ہمارے ”اپنے” تم سے بھی زیادہ اونچے سُروں میں الاپ رہے ہیں وہ جو دیکھنے میں ہمارے لگتے ہیں مگر حقیقت میں وہ تمہارے ہیں وہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں طنز کے وہ تیر اور تضحیک کے وہ نشتر جو تمہارے استعمال سے بچتے ہیں یا جس سے تم ناآشنا ہو ہمارے ” اپنے دانشور ” ہم پر آزماتے رہے اور ہم بلا جرم بھی خود کو قصور وار سمجھتے رہے، تم نے ہمارے لیئے دہشت گرد کی نام نہاد اختراع گھڑی اور ہم نے اس وار کو بھی اپنے دل پر سہہ لیا، نظریں جھکائیں اور چُھپتے رہے۔ مگر تم جتنے مہذب بنو دنیا دیکھ رہی ہے تمہاری تہذیب اخلاق باختگی اور برہنگی کے مظاہروں کے سوا کچھ بھی نہیں تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہیں اور پوری دنیا اس سے آگاہ ہے کہ ہماری حماقتوں کی بدولت ہمارے وسائل پر تم قابض ہو اس لیئے تمہارا جھوٹ بھی دنیا سچ تسلیم کر لیتی ہے اور ہمارے سچ کو بھی پھبتیوں کی نذر کر دیا جاتا ہے ابو غریب جیل جو تمہارے جرم کا ثبوت ہے اُس کو تم مسمار بھی کر دو تو بھی اب کی بار بات نہیں بنے گی۔
Iraq
مستقبل کے مئورخ نے ایک فیصد بھی غیر جانبداری برتی تو وہ عراق کی بیٹیوں نور، فاطمہ، سارہ کے آنسوئوں کی گواہی کو نظر انداز نہیں کر سکے گا جانوروں کے حقوق سے ہمیں اِنکار نہیں مگر اشرف المخلوقات کے ساتھ تمھارے کردار نے تاریخ کے تمام مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے کسی انسان کے منہ پر غلاظت تھوپنا، کسی کے گلے میں کُتے کا پٹہ ڈال کر اُس سے ہف، ہف کی آوازیں نکلوانا، کسی کو برہنہ کرکے اس کی تذلیل کرانا، عورتوں کو لوگوں کے سامنے حوائج ضروریہ سے فراغت پر مجبور کرنا اور وہ سب کچھ جسے ہمارا قلم لکھنے سے قاصر ہے ،زبان بیان کرنے سے لرزتی ہے ،کلیجہ منہ کو آتا ہے، حیا مجبور کرتی ہے کہ اِسے نوک قلم پر نہ لایا جائے کیا یہ سب مہذب لوگوں کا شیوہ ہے ؟ مانا کہ تمہاری نظروں میں ان کا جرم مسلماں ہونا ہے تم انہیں مسلمان کی حیثیت نہ دیتے ایک انسان کی حیثیت تو دے دیتے۔
ظالم سے ظالم انسان بھی اِس تذلیل کا عشر عشیر سنتا ہے ،پڑھتا ہے ،دیکھتا ہے اُس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے تمھارا پھر بھی یہ اصرار ہے کہ لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟مانا کہ ہم زبان وبیان پر عبور نہیں رکھتے، ہمارے رہن سہن سے جنگلی اور وحشی ہونے کی بو آتی ہے ،ہم نان سینس ہیں، ہمارے پیرہن بھی دیدہ زیب نہیں، ہماری خوراک بھیپروٹین سے خالی ہے ،ہمارا کھانے کا انداز بھی جانوروں جیسا ہے ہم ایڈیٹ سادہ پانی پیتے ہیں، قدامت پرست اتنے کہ آج تک قرآن کا وہی چودہ سو سالہ پرانا نسخہ سینوں سے لگائے بلکہ سینوں میں چھپائے بیٹھے ہیں ہماری باتوں پر غور نہ کرو کہ وہ اس قابل نہیں مگر اپنے گھر کی گواہی کو کیسے جھٹلائو گے تمہاری بیٹی (ریڈلی)جب اُجد اور گنواروں کی قید سے رہائی پاکر تمہارے پاس پہنچی تو اس نے یہی گواہی دی کہ اپنوں نے اتنی عزت نہیں دی جس قدر گنواروں اور ان پڑھ، تہذیب سے بے بہرہ لوگوں نے دی آئینہ سامنے ہے تقابل کرو تاریخ کا حافظہ کمزور نہیں ہوتا۔
اپنے تنخواہ دار دانشوروں کو بتادو کہ حقائق کیا ہیں، وہ جن کی زبانیں گنگ ہیں، جو بغلیں جھانک رہے ہیں۔ ملالہ ڈے منانے سے لیکر ایوارڈز کی تقریبات تک وہ ثنا خوان تہذیب مغرب اُس وقت کہاں تھے جب عراق کی مظلوم بیٹی نور کہہ رہی تھی کہ مجھے موت آ جائے کیونکہ میں انگریز کے بچے کی ماں نہیں بننا چاہتی کیا وہ فاطمہ کی آہیں اور سارہ کی سسکیاں نہیں سن رہے؟ وہ معصوم عبیرہ کے انجام کو کیوں بھول گئے؟ کس چیز نے انہیں روک رکھا ہے حق کے اظہار سے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ حق اپنے آپ کو ظاہر کرکے رہتا ہے۔