تحریر: مبشر ڈاہر برصغیر پاک و ہند کی برگزیدہ ہستی حضرت شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء محبوب الہی، اپنی اوائل عمری میں جب علم و فضل کی تلاش میں سرگرداں تھے۔تو مختلف ہستیوں سے علوم و فنون حاصل کیے، یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ آپ نے جنوبی پنجاب کی دو ہستیوں شیخ بہاؤلدین زکریا ملتانی اور بابافرید الدین گنج شکر کے کمالاتِ علم وفضل کے بارے میں سنا، بالاتفاق ربی دلی میں شیخ نجیب الدین متوکل کی ہمسائیگی میسر آئی، تعارف بڑھا تو پتہ چلا کہ شیخ صاحب تو بابا فریدالدین گنج شکر کے بھائی ہیں، باباجی کے نورِ معرفت کے تزکرے چل نکلے تو دل میں بابافرید گنجِ شکر کی زیارت اور حصول علم و فیضان کا شوق پیدا ہوا۔ دلی سے اجودھن (پاکپتن) کا رختِ سفر باندھا اور بابافرید کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ان کیعلمی ذوق و شوق اور روحانی استعداددیکھ کر ان سے بے حد متاثر ہوئے اوراس سلسلہئِ فیضان کو مکمل کرنے کے لییسالوں پر محیط دہلی سے پاکپتن کا قریب دس بار سفر کیا، بابا جی کی قربت میں وقت گزارا، چلہ کشی کی، شب و روز کی عبادات میں مشغول رہے، بعیت و خلافت پائی، علم وفضل سے مستفید ہوئے اور سند ِخلافت حاصل کی،پھر کچھ عرصے کے بعد اسی سند خلافت کی توثیق کی خاطر دوبارہ دہلی سے پاک پتن کا سفر باندھا اور بابا جی سے حاصل کردہ سندِ خلافت کی تصدیق کے لیے بابا جی کے معروف خلیفہ اور خلافت کے توثیق کار قطب جمال الدین ہانسوی، جو بابا جی کے قریبی عزیز بھی تھے، سندکی توثیق حاصل کی، اس زمانے میں سندِ خلافت جمال الدین ہانسوی کی توثیق کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ قطب جمال الدین ہانسوی نے جب خواجہ نظام الدین اولیاء کی سند خلافت کی خوب دیکھ بھال کرکے توثیق کی توخواجہ نظام الدین اولیائ کے لیے یہ خوبصورت ارشاد بھی فرمایا۔
خدائے جہاں را ہزاراں سپاس کہ گوہر سپردہ بہ گوہر شناس
اس زمانے میں صوفیاء کی خلافت ااور گدی نشینی کا ایک مربوط طریق کار موجود تھا، جس پر چل کر آپ اپنے شَیخ سے علم و فضل اور خلافتِ روحانی حاصل کرسکتے تھے، چونکہ اشاعتِ اسلام فی الہند کے اوائل ادوار میں عہد حاضر کے برخلاف، صوفیائعظام اور متوصلین طریقت مرجعِ خلائق ہوا کرتے تھے۔ لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ ان بزرگوں کی قدر کیا کرتے تھے،یہاں تک کہ بادشاہان دہلی بھی ان بزرگوں کی اس حد درجہ شہرت کی وجہ شدید پریشان ہوتے تھے اور ان بزرگوں کے خلاف ہر زہ سرائی بھی کیا کرتے تھے۔خلافت ہمیشہ سے زہدو تقوی کی بنیاد پر صاحبان علم و فضل کومنتقل ہوتی رہی ہے، علم و عمل کی پختگی اساسِ اولی ٹھہرتی، صاحبان گدی و طریقت کی طرف سے سندِ خلافت عطا ہوتی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ سند خلافت کی توثیق بھی کی جاتی، اس طرح علوم اور روحانی فیضان سینہ سینہ منتقل ہوتا۔
چند دن پہلے سرگودھا کے نواحی گاؤں میں بعید از شرع و طریقت گدی نشین نے گدی کی جھگڑے بنا پر بیس معصوم انسانوں کو اذیتیں دے کرقتل کردیا۔اس دلخراش واقعے نے وطنِ عزیز کے تمام سماجی، معاشرتی،سیاسی اور بالخصوص مذہبی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔گدی و طریقت کی اس درجے تنزلی پر اہلیان درد و دل ماتم کناں ہیں۔سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک سفاک، بے دل، اور ہٹلر مزاج آدمی کس طرح ایک صوفی درویش کا گدی نشین بن گیا۔ احکامِ شرع اور دین تو کجا یہ شخص تو انسانیت سے بھی نابلد ہے۔ وہ سارے شرعی ضابطے اور قاعدے کیوں اختیار نہ کیے گئے جو صدیوں سے انتقالِ طریقت کے لیے صوفیاء میں مروج ہیں۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں ترویج اور اشاعتِ اسلام سلف صالحین ، بزرگانِ دین،صوفیاء اور صاحبان طریقت کی مرہون منت ہے۔حجاز مقدس میں طلوعِ اسلام کے بعد جب محمد بن قاسم سندھ میں اسلام کی داغ بیل ڈال کر واپس ہوئے تو اس وقت سے لے کر برصغیر پاک و ہند کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک پوری کی پوری تاریخ دینِ متین کی تبلیغ، ترویج و اشاعت اور بالخصوص مقامی آبادی کے تقبیلِ اسلام کے حوالے سے صوفیاء اور سلاسلِ طریقت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
طریقت ہمیشہ سے تارک دنیا اورہر حال میں حوسِ مال و زر سے دور رہی ہے حالانکہ بادشاہانِ وقت نے بیشتر مرتبہ بیش قیمتی تحائف مال و جاہ اور جائیدادیں سلف،صوفیاء اور صالحین کو پیش کی لیکن صوفیاء نے انہیں قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔بزرگانِ دین نے ہمیشہ خود بھی اربابِ ثروت اور متوسلین ِحکومت سے عملی دوری اختیار کی اور اپنے متوسلین سلاسل کو ہمیشہ اس سے دوری کا درس دیتے رہے۔ اس ضمن میں یہ واقعہ نقل کرتا چلوں کہ با با فرید گنج ِ شکر کی ریاضت،خدا خوفی اور علم و فضل کی دھمیں جب ایوانِ دہلی تک پہنچیں تو دہلی کیمشہور درویش منش بادشاہ سلطان ناصر الدین محمود خلجی نے اپنے اپنے نائب السلطنت (اور بعد کے مشہور بادشاہ سلطان غیاث الدین بلبن) کے ہاتھوں تین گاؤں کی جائیدادوں کی سندیں بابا جی کی خدمت میں دہلی سے پاکپتن بھیجیں اور بابا جی کی خدمت میں پیش کیں، اور قبولیت کو شرف گردانا، بابا جی نے ان شاہی جائیدادوں کو قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ بلکہ تارک دنیا رہنے کو ترجیح دی، جنگل میں سکونت اختیار کی، پھٹے پرانے کپڑے پہنیاور پیلوں اور سبزیات پر گزارا فرمایا، اسی عملی اثر کی وجہ سے پنجاب کے نامورقبیلے سیال، وٹو، راجپوت اور بے شمار جاٹ قبیلے آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
تصوف کا وہ حقیقی آسمانِ فضل و فن آج معدوم ہوتا نظر آ رہا ہے، درگاہیں علم و فضل کی میراث سے خالی دکھائی دیتی ہیں، حقیقی طریقت و تصوف کی جگہ صاحبان سطوت و نمود لے رہے ہیں۔ درویشی کو خواجگی کے مکرو فن سے مزین کیا جا رہا ہے۔تارکین صوم و صلواة اورتارکین شرع گدی نشین ہو رہے ہیں، خلافتوں کی بندر بانٹ شروع ہو گئی ہے،جعلی پیروں، جعلی عاملوں، اور تعویز گنڈے والوں کی بھر مارنظر آ رہی ہے،عقیدت کے نام پر عصمتوں کو تار تار کرنے کا دھندہ عروج پکڑ رہا ہے، آئے روز تصوف و طریقت کے خوش رنگ چہرے پر کالک ملنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں تصوف کا وہ حسین چہرہ جس سے برصغیر پاک و ہند اسلام کا سورج طلوع ہوا تھا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔طریقت کی وجدانی کیفیات جو لاکھوں دلوں کو کفر کے اندھیرو ں سے نکال کر مزین بہ اسلام کرتی تھی کہیں گم ہو گئیں،تصوف کے نام پر ” ان گنت محفلیں محروم چراغاں” سجتی دکھائی دے رہی ہیں، رقص و سرور کو دین متین کا نام دینے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں، صوفیاء کی وہ میراث مال و زر کی حوس نے چھین لی ہے۔صوفی کے دست عطا کو دستِ گدا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
صوفی سے ہونے والی عقیدت کا رنگ بدل دیا گیا ہے۔ صوفیت کی چھتری کے نیچے بھیٹھنے والوں میں سے ہی صوفیت کا سب سے زیادہ نقصان کر رہے ہیں۔ ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں کہ لوگ رمضان المبارک میں ایک عرس پر بڑی عقیدت سے پہنچے لیکن اسی عقیدت و محبت کے ساتھ روزے کا اہتمام نہ کر سکے، لوگ بیعت اور دست بوسی کرتے تو دکھائی دئیے پر اسی عقیدت کے ساتھ نمازِ باجماعت میں نظر نہ آئے۔لوگ سماع و قوالی پر تو جھومتے نظر آئے لیکن ذکر اللہ کی محفل میں وہ سرور نظر نہ آیا۔سوال یہ ہے کہ کیا عرس کا یہ سفر ان نمازوں سے زیادہ اہم ہے جو قضا کر دی گئیں۔بغیر صوم وسلوة عرس میں شمولیت کا انتظام و انصرام کرنا بہتر ہے یا کم از کم اسی دن کی نماز کا بندو بست کر کے باجماعت نماز ادا کرنا بہتر ہے،سال میں ایک بار عرس کی محفل میں عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہونا احکامات دینیہ کا بدل ہو سکتا ہے? ایسے معتقدین اور مریدین کی تر بیت کس نے کرنی ہے? انہیں عرس میں شمولیت کے طریق کار اور احکامات صوم و صلوة کی تربیت کس نے دینی ہے? ایسے میں بھاری ذمہ داری علما ء مشائخ حق اور حقیقی وارثان طریقت و شریعت پر عاید ہوتی ہے کہ وہ پیرانِ عظام، خلفاء اور گدی نشینوں کے منصبِ اصلی اور نقلی کا فرق واضح کریں، عوام الناس اور مریدین کی تربیت کے طریق وضع فرمائیں،سلاسلِ طریقت میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو نکال کر ان کے حقیقی چہرے سے عوام الناس کو روشناس فرمائیں،گدی نشینی اور حصول خلافت کے اصول و ضوابط کی عوام الناس کو تعلیم دیں۔گدی نشینی و خلافت کیعظیم الشان منصب کا طریقہ کار اور ذمہ داریوں کی تعلیم دیں،فقہ،شرع، اور طریقت کے مابین تطبیقات کا علم دیں، تاکہ عوام الناس ملعونیانِ دین و طریقت سے اپنے ایمان بچا سکیں۔