اگر تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو بعض اوقات تواتر سے پیش آنے والے واقعات قدرت کی منصوبہ بندی کو عیاں کرتے ہیں قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہوتا ہے قدرت بڑے آدمی انعام کے طور پر قوموں کو دیتی ہے اور سزا کے طور پر روک لیتی ہے اس کی بڑی مثال اُنیسویں صدی کی دی جا سکتی ہے جس کے ساتویں عشرے میں اگر یورپ میں چرچل، لینن اسٹالن اور مسولینی پیدا ہوئے تو اسی دوران برِصغیر میں قائدِاعظم، علامہ محمد اقبال، محمد علی جوہر اور مہاتما گاندھی پیدا ہوئے اور یہ قدرت کا ایک ایسا تواتر تھا جس نے دُنیا کی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔
بالکل اسی مثال کے مصداق تاریخوں کے تواتر کی بات فی زمانہ کی جائے تو 25 مئی، 25 جون، اور اس کے بعد 25 جولائی ایک ایسا قدرتی تواتر ہے جس سے تاریخ کا دھارا بدلنے کی اُمید کی جا سکتی ہے 25 مئی کو اسلامی برادر ملک ملائشیا کے انتخابات میں 92سالہ مہاتر محمد کا انتخاب عمل میں لایا گیا جبکہ 25 جون کو دوسرے برادر اسلامی ملک ترکی میں رجب طیّب اردوان کا انتخاب ہوا اور 25 جولائی کو پاکستانی قوم اپنی قیادت کا انتخاب کرنے جا رہی ہے۔ 25 مئی کی بات کریں تو ملائشیا کے انتخابات کی اہم بات سابق وزیرِاعظم مہاتیر محمد کی انتخابی سیاست میں واپسی ہے بانوے سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد جدید ملائشیا کی ترقی کے معمار مانے جاتے ہیں اُنہوں نے عملی طور پر 2003 میں سیاست کو خیرآباد کہہ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔مہاتیر محمد 1981 سے 2003 تک ملائشیا کے منتخب وزیرِ اعظم رہے۔ مہاتیر محمد نے ملائشیا میں اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی اور ملائشیا کی موجودہ سمت کا تعین کیا اُن کا نقطہ نظر تھا جب کوئی ملک غریب ہوتا ہے اُس کی معیشت اُدھار یا بھیک پر چلتی ہے تواس کے باشندے اپنے ملک کا تعارف کراتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں اور جب کوئی ملک ترقی کرتا ہے اور اُسے معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے اور جب وہ عالمی برادری میں عزت و تکریم پاتا ہے تو اُس کے باشندے اپنے ملک پر فخر کرتے ہیں۔وہ اپنے اس قومی تفاخر کا اظہار مخصوص الفاظ میں کرتے ہوئے کہتے ہماری ترقی کے بے شمار اصول ہیں مگر ان میں سے تین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ہم نے تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ لگایا دُنیا میں تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے لہذا ہم نے اپنے کل بجٹ کا 25 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا شروع کر دیا ہے ہم نے سوچا خودداری اور خودانحصاری قوم میں عزتِ نفس اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔
ملائشیا کے انقلابی سوچ والے رہنما کے اصول اور طرزِ حکمرانی تھا جس کی وجہ سے وہاں کی عوام نے 15 سال کے وقفے کے بعد دوبارہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کا انتخاب کیا ۔اب آتے ہیں 25 جون ترکی کے انتخاب کی طرف جس میں ترک قوم نے بھاری اکثریت سے رجب طیّب اردوان کا انتخاب کیا ہے۔ رجب طیّب اردوان 90 کی دہائی میں ترکی کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے ۔ ان کی جماعت کے دو مقبول عنوان تھے مضبوط اور مستحکم معیشت اور حقیقی جمہوریت اُنہوں نے اپنے پیشرو لیڈروں، کمال درویش اور بُلندایجوت کی معاشی بحالی کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا بطور میئر استنبول اور رفاہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے شہرت حاصل کی۔ طیّب اردوان ایک مقبول اور ہر دلعزیز سیاسی قائد کے طور پر 2002 سے ترکی میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیں ان کے مقابلے میں کوئی کرشمہ ساز اور دبنگ لیڈر نہیں آ سکا جو اس طلسماتی شخصیت کو چیلنج کر سکے۔ طیّب اردوان کا سب سے بڑا کارنامہ مقروض ترکی کو قرضوں سے نجات دلا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے معیشت کااستحکام ہے۔ اُن کی بہترین منصوبہ بندی اور معاشی حکمت عملی کی بدولت اب ترکی قرض دینے والے ممالک کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ترک قوم میں خود داری اور خود انحصاری کا عنصر غالب آ رہا ہے تُرکی نے سیاحت ، مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن انڈسٹری میں بے پناہ ترقی کی ہے۔
میانمار میں روہنگیامسلمانوں پر ہونے والے مظالم شام کے تنازعہ پر اُن کا جاندار مؤقف دنیا بھر کے سامنے ہے۔ طیّب اردوان کو کمال اتاترک کے بعد ترکی کی اہم ترین شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اردوان کو مسلم دنیا کا معتبر اور ہر دلعزیز لیڈر اور جدید ترکی کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے۔اُن کی قیادت میں ترکی معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ لبرل ازم اور اسلامی روایات کا حسین امتزاج معاشرہ بن چکا ہے۔
قارئین کرام!اب آتے ہیں وطنِ عزیز پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کی جانب جس میں پاکستانی قوم اپنے ووٹ کے ذریعے سے اپنی قیادت کا انتخاب کرنے جا رہی ہے۔سابقہ حکومت میں جہاں میرے ملک نے بے پناہ ترقی کی ،بجلی کی صورت حال پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے ،پاک چائینہ اقتصادی راہداری سے ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھلی ہیں ملک میں بجلی کے پاور پلانٹس لگے ہیں ،پورے ملک میں سڑکو ں جال بچھایا گیا ،اس کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں میٹرو بس کے بروجیکٹس بنے ہیں ،پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی،نئے سکول ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں یا نئے ہسپتال بنے ،ریسکیو کو اپ گریٹ کیا گیا،طلباء اور طالبات میں میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ تقسیم کئیے گئے ،خود روزگار سکیمیںیلیو کیپ ٹیکسی سکیموں سمیت کئی قابل ذکر اقدام کئے گئے ۔لیکن ان سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا مُلک اس وقت قرضے کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض پیدا ہوتا ہے۔
میرے ملک کا دوسرا بڑا ناسور اداروں کا دوسرے اداروں میں بلا جوز مداخلت کرنا ہے ۔ملک سے انصاف ناپید ہو چکا ہے ۔ اسی طرح بالترتیب تعلیم، صحت اور روزگار فراہمی بھی میرے ملک کے اہم مسائل ہیں ان میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کرے پاکستانی قوم ایسی قیادت کا انتخاب کرے جو سب سے پہلے اس ملک کو قرضوں کی لعنت سے نجات دلا کر اس قوم کی ملی غیرت اور خود داری کو بچا لے اور ان باتوں کو یقینی بنانے کے لیے دیانتدار اور محبِ وطن قیادت درکار ہے۔ ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے اور اللہ ہمیں توفیقِ کاملہ دے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے ہاتھوں سے اپنی عظیم قیادت کا صحیح انتخاب کر لیں قدرت کا 25 مئی، 25 جون سے 25 جولائی والا تواتر ہمارے لیے بھی نیک شگون بن جائے ہمارا ملک دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرے ۔ اقوامِ عالم میں ہم بھی خود داری اور فخر سے سر اُٹھا کر چلنے والے بن جائیں ہماری آنے والی نسلوں کے مقدر بھی بدل جائیں اور آخر پر اللہ سے دُعا ہے کہ 25 مئی ، 25 جون کی طرح ہماری قوم کو بھی 25 جولائی کے بعد دیانتدار اور محبِ وطن قیادت میسر آ جائے۔آمین!۔