تحریر : رائو عمران سلیمان تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے میری اس بات سے ضرور اتفاق کرینگے گے کہ قیام پاکستان کا مقصد صرف آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہی نہیں تھا بلکہ ایک ایسا ملک بناناتھا جہاں مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیاں گزارسکیں۔یعنی پاکستا ن میں ایک ایسے معاشرہ ترتیب دیا جائے جو اسلامی معاشرت ،عدل وانصاف اور قانون کی حکمرانی کی پاسبانی کرتاہو۔اس سلسلے میں میرا یہ ماننا ہے کہ جو شخص بھی کلمہ حق کے دائرے میں آتاہے اس کی انفرادی زندگی ، تہذیب وتمدن ،اس کی سیاست ، رشتے داریاں اور دوستیوں میں سے کوئی بھی شے عقیدہ ختم نبوت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔
جب پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا تب بھی اسلام دشمن ہندئوں اور انگریزوں نے مسلمانوں کی تہذیب کو خطے سے مٹانے کی کوششیں شروع کررکھی تھی،اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی میدان میں بہت پیچھے دھکیل رکھا تھا،مسلمانو ں کو اپنی مذہبی آزادی میں جن دشواریوں کا سامنا تھا اسے چندلفظوں میں یہاں بیان کرنا بہت مشکل ہوگا،مسلمانوں پر اس قدر مظالم توڑے گئے کہ انہیں اقلیتوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی جائیدادیں ظبط کرکے انہیں کنگال کردیا گیا،تاریخ گواہ ہے کہ اس تمام ترمظالم کے باوجود ایک بھی مسلمان اپنے عقیدے سے نہ پھر سکا، مسلمانوں کی عبادتوں پر پابندیاں لگاکر بھی ہندوں اور انگریزوںکے مظالم مسلمانوں کے دلوں سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ختم نہ کرسکے ،یہ وہ مسلمان تھا جو اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ دین اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوت کا ہے۔
یہ ہی وہ عقیدہ ہے جس نے پوری امت کے مسلمانوں کو محبت اور عقیدت کی ایک لڑی میں پرورکھا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام سالہا سال سے اس عقیدے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مشغول ہے اس کا سلسلہ آج بھی اسی طرح سے جاری ہے کیونکہ دشمن یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اسلامی عقیدوں کا ایک ایک جز اسی عقیدہ ختم نبوت سے جڑا ہے ،ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوتۖ سے ہی جاری چلا آرہاہے جو سلیمہ کذاب سے شروع ہوکر قادیانیت پر جاپہنچا ہے ،مگر جہاں عقیدہ ختم نبوت سے محبت رکھنے والا مسلمان اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھا وہاں اللہ پاک نے ہر دور میںان سازشو ں کو ناکام بنایا۔سات ستمبر 1974کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرارد دیا،عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس سلسلے میں اس تاریخی بل کو پیش کیاجسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، اس بل کی کامیابی کے بعدآغا شورش کاشمیری ،علامہ محمد احمد رضوی ،مولانا محمد اجمل خان اورعلامہ احسان الہی ظہیرکہا کرتے تھے کہ “اے اللہ تیری ہر اداپر قربان جائیں کہ تونے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ختم نبوت کافیصلہ کسی چوک یا چوراہے میں نہیں کروایابلکہ پارلیمنٹ میں کروایا” مگرموجودہ پارلیمنٹ قسم کی پارلیمنٹ ہے “؟ کہ حکومت کا اہم وزیر پارلیمنٹ کے حلف نامے میں تبدیلی لانے کے لیے چند وزیروں کے ساتھ ملکر اس کا مسودہ تیار کروائے اور پوری حکومت وپارلیمنٹ تمام تر سازشوں سے لاعلم بھی رہے ؟
یہ سب کچھ دماغ میں نہیں بیٹھتا۔حالیہ دنوں میںجب انتخابی اصلاحاتی بل لانے کا فیصلہ کیا گیاجس میں پارلیمنٹ میں موجود ہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طورپر انتخابی اصلاحات لانے کا فیصلہ کیااور اس سلسلے میں جو جو نکات اس میں شامل کرنا تھے ا ن سب پرتمام سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی رائے دی اور اس کے بعد یہ بل تیار کیاگیا۔مگراس بل کے اندر انتخابی فارم میں شامل ختم نبوت کے حلف نامے پر کسی نے اس کو نہ پیش کیااور نہ ہی کسی نے رائے دی ۔پھر کس طرح پس پردہ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد ، وزیرآئی ٹی انوشہ رحمان ، فواد حسن فواد اور طارق فاطمی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ اس حلف نامے کو چھیڑیں، کیونکہ یہ ایک طے شدہ حلف نامہ ہے جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے پاس کیا تھا لہذااب ان تمام لوگوں کو یہ بتانا ہی ہوگا کہ اس حلف نامے میں ترمیم کرنے کی انہیں کس نے اجازت دی۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ و ہ ہی سلسلہ نہیں ہے جو قیام پاکستان سے قبل ہی مسلمانوں کو درپیش رہاہے ؟رپورٹ یہ ہے کہ اس سلسلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف صاحب نے راجہ ظفرالحق کی قیادت میں جو کمیٹی قائم کی تھی اس کمیٹی نے اپنی انکوائری مکمل کرلی ہے اور اس رپورٹ میں وفاقی وزیر زاہد حامد کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے مگر ابھی تک دیگر باقی ذمہ داروں کے نام سامنے نہیں آئیں ہیں ، اور ساتھ ہی کمیٹی میں ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ زاہد حامد کے خلاف کیا تادیبی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے ۔یہ ہی وہ مطالبہ ہے جو ہر مسلمان کے ساتھ تحریک لبیک یارسول کی جانب سے کیا گیا ہے میری نظر میں یہ مطالبہ کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ہے ۔متعلقہ وزیروں نے جس چالاکی اور چابکدستی سے آئین کی ایک اہم شق کو کمزور کرنے کی کوشش کی ، اس ناپاک جسارت کے خلاف تحریک لبیک یارسول اللہ کاکردار قائدانہ رہاہے ۔یہ کوئی ٹائپنگ مسٹیک نہیں ہے جس طرح کے اسپیکر صاحب نے اپنے وزیروں کی وکالت کی اور نہ ہی یہ عمل انجانے میں ہوا ہے یقینا یہ سوچی سمجھی ناپاک جسارت ہے لہذا ان لوگوں کو جنھوں نے اس طرح کے حالات پیدا کیئے ان کے خلاف ہر صورت میں تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دوبارہ ابھی تک اس شق کی ترمیم واپس لینے کے لیے اسے اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ اسے ابھی تک اسمبلی میں لانے میں کیا دیری اختیار کی جارہی ہے کیونکہ اس شق کی سینیٹ سے ترمیم پاس ہوچکی ہے اب اس کا پروسس اسمبلی میں باقی ہے بعد میں اسے صدر کے دستخط کے ساتھ اصل حالت میں لایا جاسکے گا، مگر فی الحال اس عمل میں ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد تاخیر کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان صرف اور صرف اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتو اس نظریئے کہ تحت یہ بات جان لینا ہوگی کہ عقیدہ ختم نبوت کے بغیر پاکستان کی پارلیمنٹ اور خودپاکستان کے وجود کاکوئی جواز نہیںبنتا یعنی پاکستان اور اسلام لازم وملزوم ہیں ۔آج پاکستا ن کا آئین مکمل طورپر اس ہی ترکیب کے ساتھ ملکی اداروں میں کام کررہاہے، جب تک اس ملک میں ان اسلامی قدروں کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہم پاکستان کو کبھی بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان کلمے کے نام پر حاصل کیا گیاہے یہ ہی اسلام اور پاکستان کی اصل روح ہے ، اب پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اسلامی ریاست کے اس وجود کو قائم رکھنے کے لیے عقیدہ ختم نبوت کی مکمل اور دل سے پاسدار ی کریں ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔