تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری اگست کا مہینہ جہاں وطن عزیز کے قیام کی سالگرہ کا دن لے کرآتا ہے وہیں اس ماہ میں چند ایسی شخصیات بھی دارفانی سے رخصت ہوئیں جنہوں نے اپنے عمل و کردار خاص طور پر اپنے شعبوں میں ایک الگ مقام بنایا اور وطن عزیز کی خدمت کے ساتھ ساتھ اسکا نام دنیا بھر میں روشن کیا اور سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیاپاکستان میں ایسی بے شمار شخصیات گزریں ہیں جن کا نام ان کے کردار وعمل کی وجہ سے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا وطن عزیز پاکستان کی سرزمین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام بنانے والے سپوت پیدا کیے جنہوں نے نا صرف پاکستان بلکہ برصغیر اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کیا اور ہر جگہ سبزہلالی پرچم سر بلند کیا ان شخصیات میں سے آج میں چند ایک کا ذکر کروں گا۔
سب سے پہلا ذکر اس عظیم شخصیت کا جو بیک وقت مفکر اردو،محقق،ماہر لسانیت کے ساتھ ساتھ انجمن اردو کے بانی تھے اس عظیم شخصیت کا نام مولوی عبدالحق تھا مولوی صاحب کو بابائے اردو بھی کہا جاتا ہے مولوی عبدالحق 20اپریل1870کو سراواں (ہاپوڑ) میرٹھ ضلع میں پیدا ہوئے عبدالحق نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر ہی میں حاصل کی اور پھر میرٹھ میں تعلیم حاصل کی آپ نے 1894میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا جہاں آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ آپ سرسید احمدخاں جیسی شخصیت کی صحبت میں رہے تقریباً 1895میں آپ نے حیدرآباد دکن کے ایک سکول میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد آپ یہ ملازمت چھوڑ کر عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہوگئے اور 1930میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے1902 میں انجمن ترقی اردو کے نام سے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ بنایا گیا 1912میں مولوی عبدالحق اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور بہت جلد اس ادارے کو فعال ادارہ بنایا اور اردو کی ترقی کے لیے اقدامات کیے کیونکہ مولوی عبدالحق حیدرآباد دکن میں ملازم بھی تھے اس لیے اس ادارے کا مرکز بھی وہیں منتقل کر دیا گیا۔
آپ نے شعبہ تعلیم کی ترقی کا بیڑا اٹھائے رکھا 1947میںتقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے اہتمام میں کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج جیسے ادارے قائم کیے1935میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959کو حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔بابائے اردو مولوی عبدالحق 16 اگست، 1961کو کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں مدفن ہیں۔اگر 16اگست کے حوالے سے ہی بات جاری رکھ جائے تو ایک اور عظیم شخصیت کا یوم وفات بھی اسی روز ہوا جن کا پیدائشی یا خاندانی نام پرویز فتح علی خان تھا لیکن انہیں جو شہرت حاصل ہوئی اور جس نام کی بدولت انہوں نے پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا وہ نام نصرت فتح علی خان ہے نصرت فتح علی خان وہ نام جو آج بھی فن موسیقی سے محبت کرنے والے لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے نصرت فتح علی خان 13اکتوبر 1948کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے نصرت فتح کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے دور کے بہترین قوال تھے۔
انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو اپنے منفرد انداز سے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا آپ کا خاندان قیام پاکستان کے وقت جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا کیونکہ نصرف فتح علی خان اپنے والد اور تایا کے زیر سایہ رہے اس لیے آپ میں بھی قوالی کا جذبہ بچپن سے ہی پیدا ہو چکا تھا آپ نے پہلی دفعہ اپنے والد کا پڑھا ہوا کلام “علی مولا علی”پڑھا اور یہی کلام آپ کو شہرت کی بلندیوں پر لے گیا اس دور میں ‘سن چرخے مٹھی مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا’ اور ‘سانسوں کی مالا پہ سمروں میں پی کا نام’ نے عام طور پر قوالی سے لگاؤ نہ رکھنے والے طبقے کو بھی اپنی طرف راغب کیا اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہوگیا۔
نصرت فتح علی خان کی قوالی دم مست قلندر مست مست کے ریلیز ہونے کے بعد انہیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی آپ کی بین الاقوامی سطح پر صحیح معنوں میں پذیرائی تب ہوئی جب ہالی وڈ فلم “ڈیڈ مین واکنگ’ کا ساؤنڈ ٹریک آپ کی آواز میں تیار ہوا تھا۔ بعد میں نصرت فتح علی خان نے ہالی وڈ کی فلم ‘دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ’ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازع فلم ‘بینڈٹ کوئین’ کے لئے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی نصرت فتح علی خان کی مشہور غزلوں اور قوالیوں میں سے چند ایک یہ ہیں شکوہ / جواب شکوہ،میرا پیا گھر آیا، دم مست قلندر مست مست،یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے،زِحالِ مسکیں مکن تغافل(فارسی)،رنگ،حق علی علی مولا علی علی،نی میں جانا جوگی دے نال،چل میرے دل کھلا ہے مے خانانصرت فتح علی خان کو اگر شہنشاہ قوالی اور لیجنڈری گلوکار کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
آخر یہ عظیم قوال 16 اگست 1997کو 48 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد لندن، انگلینڈ میں اس دنیا سے منہ موڑ گیا لیکن 21سال گزر جانے کے باوجود بھی لوگوں کے دلوں پر ان کی قوالیوں اور غزلوں کا راج ہے اگر 17اگست کا ذکر کیا جائے تو یہ دن بھی پاکستانی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز پاکستان کے صدر و چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق اپنے دیگر آرمی افسران کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے حادثہ میں شہید ہوئے آپ نے 5جولائی 1977کو اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھالی ضیا الحق نے تقریباََ گیارہ سال تک وطن عزیز پر حکمرانی کی ضیا الحق 1924میں جالندھر میں ایک کسان محمد اکبر کے گھر پیدا ہوئے آپ نے فوج میں کمیشن حاصل کیا دوسری جنگ عظیم کے دوران برما ،ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات سر انجام دیں وطن عزیز پاکستان کے قیام کے بعد آپ ہجرت کر کے پاکستان گئے آپ نے اپنی محنت لگن اور حب الوطنی سے فوج میں جنرل تک کا عہدہ حاصل کیا بعد ازاں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت ختم کر کے مارشل لگا یا اور گیارہ سال تک حکومت کی فروری 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ محمد خان جونیجو ان انتخابات کے نتیجہ میں وزیر اعظم بنے۔ 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لا اٹھا لیا گیا اور بے اعتمادی کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988ء کو محمدخان جونیجو کی حکومت برطرف کر دی۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں سرقہ، ڈکیتی ، زنا، ابتیاع شراب ، تہمت زنا، اور تازیانے کی سزاؤں سے متعلق حدود آرڈینس اور زکوةآرڈینس نافذ کیے۔ وفاقی شرعی عدالت اور قاضی عدالتیں قائم کیں 17 اگست 1988کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہونے کے باعث دیگر آرمی افسران کے ساتھ شہید ہوئے۔اگر جدید موسیقی (پاپ ) کا ذکر پاکستان میں کیا جائے تو ایک نام ایسا بھی آتا ہے جو اب ہم میں نہیں نازیہ حسن پاکستان اور برصغیر میں پاپ موسیقی کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں ۔ نازیہ حسن 3 اپریل 1965 میں کراچی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم لندن میں حاصل کی۔ 1980 میں پندرہ سال کی عمر میں شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچیں جب انہوں نے بھارتی فلم قربانی کا گیت آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے گایا۔ اس گانے کی شہرت کے بعد نازیہ حسن نے گیتوں کے کئی البم اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ ریلیز کیے۔انہوں نے 1995 میں شادی کی اور 13اگست 2000 میں سرطان سے وفات پاگئیں۔سماجی فلاحی حوالہ سے ایک اور بڑا نام ڈاکٹر رُتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ المعروف رتھ فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء ) ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔
انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں کوڑھ (جزام )کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دی۔ڈاکٹر رْتھ فائو کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان ، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ ڈاکٹر رْتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی تھیں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال 10 اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ہواآپکی تدفین 19اگست 2017کو ہوئی آپکی سماجی فلاحی خدمات کے صلہ میں قومی پرچم سرنگوں رہا آپکی تدفین میں سیاسی سماجی فلاحی حکومتی اور آرمی افسران نے شرکت کی ۔آخر میں تمام مرحومین کے لیے مغفرت کی دعا جنہوں نے پاکستان کا نام بلند کیا اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔