تحریر : رانا عبدالرؤف خاں وہ تاریخ کی ایک ایسی کتاب تھے کہ جس نے جاگتی آنکھوں سے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کونہ صرف ایک عام سیاست دان سے ایک انقلابی کے طور پر اْبھرتے دیکھا بلکہ وہ بھٹو صاحب کے محرم راز بھی تھے، وہ اْس کے دوست بھی تھے اور ایک جیالے بھی۔
وہ اْس ظلم و بربریت کا عینی شاہد بھی تھا جب جنرل ضیاء نے ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے اقتدار پر شب خون مارا تھا۔ وہ تاریخ کی ایسی نادر شخصیت تھے کہ جس نے بھٹو کو وزیراعظم بننے سے ایک قیدی تک کا جو سفر تھا وہ سب اُن کی جاگتی آنکھوں نے دیکھے اور محفوظ کئیے تھے۔
بھٹو صاحب کے ساتھ خالد احمد خاں کھرل کا بہت قریبی تعلق تھا۔ بھٹو کے شہر میں انکی پوسٹنگ کیا ہوئی بھٹو کے دیوانے ہی بن کر نکلے۔ جب بھٹو کو قریب سے دیکھا تو اپنا سب کچھ اْس پر قربان کرنے کا عہد کرچکے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اور پھر کمشنر لاڑکانہ کے عہدے پر جب فائز تھے تو بھٹو فیملی کے بہت قریب ہونے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب کی کال آئی اور کہا کہ بے نظیر لاڑکانہ آرہی ہے بھٹو صاحب وزیراعظم تھے ساتھ تاکید بھی کی کہ کوئی پروٹوکول نہیں دینا۔ خالد کھرل صاحب نے ایس پی کو کہا اور ایس پی نے ایک ڈی ایس پی کو گاڑی سمیت بھیج دیا۔ بھٹو صاحب کو جب پتہ چلا تو ایس پی پر ناراض ہوئے کہنے لگے کہ میں اپنے بچوں کو صدر ایوب کی اولاد جیسا نہیں بنانا چاہتا۔
خالد احمد کھرل ایک با رعب اور دبدبے والی شخصیت تھی، جواْن سے ملتا مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ایک سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک علم دوست شخصیت بھی تھے۔ بے شمار کتابوں کا خزانہ ان کے گھر میں موجود ہے۔ کتابوں سے ایسی دوستی کہ جس کی مثال بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ ایک دفعہ کسی کتاب کو پڑھنا شروع کرتے تو ساتھ ساتھ سگریٹ کے مرغولے اْڑاتے رہتے اور ساتھ ساتھ چائے اور کافی کی چسکیاں لیتے رہتے۔ کتاب تب تک پڑھتے جب تک ختم نہ ہوجاتی۔ کمالیہ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تو پھر عمل کی پیاس بجھانے کہیں اور نہیں بلکہ انگلینڈ کی کیمرج یونیورسٹی تک جاپہنچے۔ وہاں سے اکنامکس کے مضمون میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور پھر پاکستان کے واپس آئے۔ پاکستان واپسی کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک نشست میں مجھے بتایا کہ جب میں واپس آرہا تھا تو میں نے سوچا کہ بحری جہاز کے ذریعے سفر نہیں کرنا بلکہ میں نے دُنیا کا نقشہ اپنے سامنے رکھا اور پھر ایک روٹ ترتیب دیا ۔ اپنی گاڑی پر ضروری سفری سامن لادا اور گاڑی پر ہی پاکستان کی جانب پورے یورپ کے شہروں اور دیہات سے ہوتے ہوئے براستہ تُرکی اور ایران پاکستان میں داخل ہوئے۔ یہ سفر اُنکی یادوں کا ایک عظیم سرمایہ ہے جو کہ مکمل ایڈونچر سے بھرا ہوا تھا۔
ایک دفعہ میں خود لاہور میں اْنکے گھر ملنے گیا تو خوب گپ شپ لگی۔ میں نے بہت سے سوالات کئیے۔ میرے دل میں خواہش تھی کہ اگر خالد کھرل صاحب راضی ہوں تو میں اْنکی یاداشتوں کو مرتب کروں۔ کیونکہ وہ اْس عہد کے عظیم چشم دید گواہ تھے کہ جن کے سامنے جنرل ضیاء نے مارشلاء لگایا اور وہ اْس بین الاقوامی سازش کے عینی شاہد بھی تھے جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔
بے نظیر کو ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح سے سمجھا اور بیٹا کہہ کر ہی مخاطب کیا۔ جواب میں بے نظیر شہید بھی اْنہیں انکل کہہ کر مخاطب کرتی، بہت عزت دیتی احترام دیتی کہ اْن کے والد کے دوست تھے۔
جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تو ہمیشہ اپنے انکل خالد احمد خان کھرل کو فون کرتی اور برملا پوچھتی کہ اب اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔ جب بے نظیر بھٹو نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت دستخط کرنے جارہی تھی تو بے نظیر نے خالد احمد کھرل صاحب کو فون کیا اور کہا کہ آپ فوری لندن آجائیں بہت اہم معاملات پر گفتگو کرنی ہے۔ خالد صاحب فوری لندن چلے گئے بی بی شہید سے ملاقات ہوئی تو وہیں بیٹھے بیٹھے میثاق جمہوریت کا ڈرافٹ تیار کرکے نواز شریف کو بھیجا گیا اور نواز شریف نے تھوڑی بہت ترمیم کی اور یوں اس ملک میں دو بڑی جماعتوں کے سربراہان نے آمریت اور فوج کو اقتدار پر شب خون مارنے سے روکنے کا معاہدہ کیا۔
بے نظیرشہید جب بھی لاہور آتی تو شادمان ٹاؤن میں واقع خالد احمد خاں کھرل کے گھر میں قیام کرتیں تھیں۔ خالد خان کھرل نے ہمیشہ مثبت سیاست کی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ وہ جمہوریت کا ایک سپاہی تھا اور اس سے زیادہ کبھی بھی خواہش نہیں کی کہ اْسے سپاہی سے کچھ زیادہ سمجھا جائے۔ جب بے نظیر کی حکومت بنی تو سب سے اہم وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان خالد احمد خاں کھرل کو سونپا گیا۔ وزارت کا حلف اْٹھانے کے بعد اپنے سیکرٹری سے پوچھا کہ دفتر کتنے بجے لگتا ہے۔ پتہ چلا کہ ٹھیک نو بجے لگ جاتا ہے۔ اگلے ہی دن تیار ہو کر نو بجے اپنے دفتر کے سامنے کھڑے تھے لیکن نوبجے تک دفتر کی صفائی کرنے والا بھی نہیں آیا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے اعلیٰ افسران کو بْلایا اور خوب ڈانٹ پلائی۔ پھر اگلے دن سارا سٹاف نو بجے اپنے دفتر میں حاضر تھا۔
میں نے ایک دن پوچھا کہ خالد صاحب زندگی کا سب سے یادگار ترین واقعہ کونسا ہے؟ کہنے لگے کہ بہت سے واقعات ہیں پر ایک واقعہ تو میرے دل پر آج بھی نقش ہے۔ کہتے میری پوسٹنگ بدین میں تھی کہ 1965کی جنگ چھڑ گئی۔ چند ہی دنوں میں جنگ ختم ہوگئی۔ جنگ ختم ہوئے ابھی ایک دن گزرا تھا کہ اچانک بدین کی فضاؤں میں ہندوستانی فضائیہ کے جنگی طیارے دکھائی دئیے جنہوں نے بمباری کرنی شروع کردی۔ میں نے فوری طور پر فوج سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ہمارے پاس اینٹی ائیرکرافٹ گن تو موجود ہیں لیکن جس اعلیٰ افسر نے فائرنگ کا حکم دینا ہے وہ کراچی اپنی فیملی سے ملنے گیا ہے۔ ایسے میں ایک پٹھان تھا جس نے جب ہندوستانی جہازوں کو دیکھا تو وہ اپنی گن لے کر اپنی چھت پر چڑھ گیا اور جہازوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ جہاز تیزی سے آتے تووہ پٹھان بھی چھتوں پر بھاگ بھاگ کر پیچھا کرتے ہوئے فائرنگ کررہا تھا کہ چھت سے گر کر شہید ہوگیا۔ اس سارے واقعے میں صرف اسی ایک پٹھان کا جانی نقصان ہوا تھا۔ خالد صاحب کہتے کہ مجھے اْس پٹھان کی جرآت نے بہت متاثر کیا اور میں اْسے کبھی بھی نہیں بھلاسکا۔
کمالیہ سے سیاست کا آغاز کیا تو وفاقی کابینہ کا حصہ بنے لیکن کبھی بھی اپنے مخالفین پر انتقامی کاروائی نہیں کی۔ مخالف ووٹر کا بھی حد سے زیادہ احترام کیا۔ میں ایک کام سے انکے پاس گیا تو کہنے لگے رانا صاحب آپ کا سب سے بڑا تعارف ہی یہ ہے کہ آپ کمالیہ سے ہیں۔ کسی اور تعارف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں تو ہر اْس شخص کا کام کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں جو کمالیہ سے تعلق رکھتا ہو۔ سیاست کی تو اتنی صاف ستھری کہ کرپشن کا ایک بھی الزام انکے دامن پر نہیں تھا۔ کردار ایسا کہ مخالفین نے بھی کبھی انکی ذات پر ایسا الزام نہیں لگایا۔ ہمیشہ صاف ستھرا لباس زیب تن کیا۔ سفاری سوٹ شوق سے پہنتے تھے۔ وقت کے بہت پابند تھے۔ اپنے روزمرہ کے معمولات کو ہمیشہ پابندی سے ادا کرتے۔ وقت پر سوتے اور وقت پر جاگتے۔
ایک نشست میں بتایا کہ میں ابوظہبی میں مقیم تھا کہ ایک دن فون کی گھنٹی بجی تو آگے سے بے نظیر بول رہی تھیں کہہ رہی تھیں کہ انکل شاہ نواز کو قتل کردیا گیا ہے آپ ایسا کریں جنرل ضیاء کو پیغام پہنچائیں اور کہیں کہ میں یہ قتل اْس کے خلاف استعمال نہیں کررہی۔ برائے مہربانی اس قتل کو ہماری سیاسی جنگ میں کوئی بھی نہ لے کے آئے۔ خالد کھرل صاحب کہنے لگے کہ میں نے پھر ڈی جی انٹیلی جنس بیورو کو فون کیا اور اْنہیں بی بی شہید کی طرف سے پیغام پہنچایا جو جنرل ضیاء تک پہنچا دیا گیا۔ یعنی خالد کھرل صاحب کوبھٹو فیملی اپنے خاندان کا اہم بزرگ سمجھتے تھے جو ہر مشکل سے مشکل وقت میں بھی ہر وقت بھٹو فیملی کیساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
آج اْن کے بیٹے حیدر خاں کھرل سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میرے والد میرے بہت ہی اچھے دوست بھی تھے۔ مجھے ہمیشہ سے ہی اْن پر بہت مان تھا بہت بھروسہ تھا کہ زندگی کی اس کڑی دھوپ میں میرے لئیے ایک شجرسایہ دار تھے۔ وہ تھے تو گھر اور کاروبار کی طرف سے میں بے فکر رہا کرتا تھا۔ ملک میں ہوتا یا بیرون ملک میں ابو جی کو کال کرتا تو کہتے پیچھے کی فکر مت کرو سب کچھ سنبھالا ہوا ہے انکے یہ الفاظ مجھے ساری پریشانیوں سے ماورا کردیتے تھے۔
آج حیدر خان کھرل کے ساتھ ساتھ پوراکمالیہ ہی یتیم ہوگیا ہے۔ ایک ایسے شفیق انسان سے کہ جو اپنے دل میں عوام کی خدمت کا جزبہ رکھتا تھا آج وہ تازہ ہوا کا جھونکا رخصت ہوچکا ہے۔ واقعی بڑے لوگ آسمان سے نہیں اْترتے بلکہ اپنے جیسے عام انسانوں میں سے اپنی خدائی خصوصیات کی بدولت اْبھرتے ہیں اور اپنا مقام اونچا کرلیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے درد پر بلبلا اْٹھتے ہیں انکی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے ہیں۔
خالد احمد خاں کھرل چلے گئے اور انکے ساتھ ہی سیاست میں ایک پڑھے لکھے ، ایماندار اور فرض شناس شخص کی جگہ خالی ہوگئی ہے۔ اْنکے بیٹے ہی اْنکے واحد جانشین ہیں کہ جنکے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری قدرت کی طرف سے آن پڑی ہے۔ وزیراعظم آفس سے لیکر ایک عام سیاسی ورکر تک ہر طرف سے خالد احمد خان کھرل کی موت کو ایک عظیم سانحہ سمجھا گیا ہے اور سب نے مرحوم کی شاندار سیاسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔