وہ 30 اکتوبر 2011ء کا دن تھا جب لاہور کی ہر سڑک کا رُخ مینارِ پاکستان کی طرف ہو گیا۔ اذانِ مغرب سے کچھ پہلے مینارِ پاکستان کی وسیع و عریض میدان کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ سیاسی تجزیہ کار ششدر کہ اتنی خلقِ خُدا کہاں سے آگئی۔ اُنہیں سیاسی تاریخ کا رُخ بدلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ نمازِ مغرب کے وقت ایک شخص سٹیج پر نمودار ہوا تو فضاء نعروں سے گونج اُٹھی۔ پھر وہ سٹیج پر ہی سر بسجود ہو گیا۔ اپنے خطاب میں اُس نے کہا کہ اگر موجودہ حکمرانوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہ کیے تو اُن کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کروںگا۔ برسرِ اقتدار آکر امریکہ سے برابری کی بنیاد پر بات کریں گے۔ لوڈشیڈنگ اور کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ امریکی جنگ کے لیے ڈالر لینے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کروں گا۔ پھر اُس نے مجمع کی طرف اشارہ کرکے کہا ”یہ لوگوں کا سیلاب نہیں، سونامی ہے۔
کشمیریو! گواہ رہنا کوئی تمہارے حق میں بولا تھا، بول رہا ہے اور بولتا رہے گا”۔ زندانِ تمنا کے اسیر سمجھے کہ اُنہیں مسیحا مل گیا، آمدِ صبح کی نوید سنانے والا آگیا۔ اب دَورِ کرب شگفتِ بہار میں بدلنے کو ہے۔ وہ ہر نقشِ کہن کو مٹانے اور کنجشکِ کرومایہ کو شاہیں سے لڑانے آیا ہے۔ اُنہیں یقین تھا کہ وہ اپنے سوزِ یقیں کے بَل پر قوم کی تقدیر بدل دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں بھی گیا لوگوں نے دیدہ ودِل فرشِ راہ کیے۔ اِس حیرت انگیز مقبولیت کو دیکھ کر ڈال ڈال پھدکنے والے ”سیانے بندر” صاف چلی شفاف چلی کی شاخوں سے جھولنے لگے۔
مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے وہ لکھ کر دینے کو تیار تھا کہ قومی اسمبلی کی 125 سیٹیں اُس کی جیب میں ہیں لیکن انتخابات میں اُس کے حصّے میں صرف 28 سیٹیں آئیں۔ یہ کامیابی بھی محیرالعقول تھی کہ 2002ء کے انتخابات میں اُس کے حصے میں صرف اپنی نشست ہی آئی لیکن وہ قانع نہ ہوااو ر دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ کو اپنا وتیرا بنا لیا۔ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ تو اُس کے نشانے پر پہلے ہی تھیںاب الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے آراوز بھی زَد میں آگئے۔ نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچروں کا الزام لگا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کہا ”کتنے میں بِکے؟”۔پھر تان 14 اگست 2014ء کے دھرنے پر ٹوٹی۔ ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنا 126 روز ہ دھرنے میں جو کچھ ہوا، اُس کی نظیر پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ سول نافرمانی کا اعلان ہوا، سرِعام یوٹیلٹی بلز جلائے گئے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی گئی، وزیرِاعظم ہاؤس پر چڑھائی کی گئی، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، تھانے پر حملہ کرکے کارکُن چھڑوائے گئے۔
پولیس افسران کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور شاہراہِ دستور کے فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اُکھاڑدی گئیں۔ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کی عین ناک کے نیچے ہوتا رہا لیکن کوئی ازخود نوٹس نہیں، کوئی آرٹیکل چھ نہیں۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے قومی اسمبلی کے ممبران نے اپنے استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروا دیئے جو آرٹیکل 64 کے تحت منظور ہونے چاہیے تھے لیکن سردار ایاز صادق اُنہیں نہ صرف سینت سنبھال کر بیٹھے رہے بلکہ مستعفی ارکانِ اسمبلی نے تین ماہ کی تنخواہیں بھی وصول کیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کا بہانہ بنا کر عمران خاں نے اپنا دھرنا ختم کیا۔ جب سپریم کورٹ کے فُل بنچ میں انتخابی دھاندلی کا کیس چلا تو متفقہ فیصلہ آیا کہ 2013ء کے انتخابات شفاف اور عوامی امنگوں کے عین مطابق تھے۔ بعد میں ایک صحافی نے عمران خاں سے 35 پنکچروں کے بارے میں سوال کیاتو اُنہوں نے کہا ”وہ سیاسی بیان تھا”۔
اُس دَور کے خاں صاحب کے قریب ترین ساتھی اور اے ٹی ایم جہانگیر ترین نے ایک دفعہ کہا ”2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف بُری طرح ہاری تھی۔ 66 فیصد حلقوں میں پی ٹی آئی کو 20 فیصد ووٹ بھی نہیں ملے”۔ انانیت کے بُت پالنے والے عمران خاں نے جولائی 2016ء میں ایک دفعہ پھر احتجاج کا پروگرام بنایااور 7 اگست 2016ء سے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیالیکن اِس بار اُس وقت کے وزیرِداخلہ چودھری نثار نے ایسا پروگرام ترتیب دیا کہ خاں صاحب بنی گالہ میں ”پُش اَپس” کرتے رہ گئے اور کے پی کے کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کو اسلام آباد کی حدود میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ خاںصاحب کا احتجاج 2018ء کے انتخابات تک کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی بہانے سے جاری رہا۔ عریاں حقیقت یہی کہ اُن کی نظر وزارتِ عظمیٰ پر تھی۔ اِسی لیے اِس دوران وہ ایسے اعلانات کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے رہے جن کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا ناممکنات میں سے تھا۔ بالآخر خاں صاحب کو ”شیروانی” نصیب ہو ہی گئی۔ آج لگ بھگ تین سال گزرنے کے باوجود وہ سارے خواب ادھورے جو وقتاََ فوقتاََ قوم کو دکھائے جاتے رہے۔ اب خاں کے چاہنے والے کہتے ہیں ”ہماری ضیاء سے منور ہونے والے ہمیں سے بیگانہ ہو چکے”۔ یہ ہے خاںصاحب کی کرسیٔ اقتدار تک پہنچنے کی مختصر ترین تاریخ۔
قوم خاں صاحب کے اُن وعدوں اور دعووں پر سراپا احتجاج ہے لیکن اُنہیں اب بھی نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آگ اُگلنے سے فرصت نہیں۔ 19 اپریل کو تحریکِ لبّیک کے دھرنے پر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیرِاعظم نے فرمایا ”افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس معاملے پر جے یو آئی اور نون لیگ نے بھی سیاست شروع کر دی ہے۔ سلمان رشدی نے جب کتاب لکھی تو نوازشریف نے کوئی بیان جاری نہیں کیا” (وزیرِاعظم کو یہ بھی پتہ نہیں کہ سلمان رُشدی نے 1990ء میں کتاب لکھی اور اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی)۔ اِسی لیے افلاطون نے کہا ”سلامتی اِسی میں ہے کہ اپنا مُنہ بند رکھو، جب تک مچھلی کا مُنہ بند رہتا ہے وہ کانٹے کی گرفت میں نہیں آتی”۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کی ہنگامہ آرائی کا مجرم کون ہے؟۔ کیا تحریکِ لبّیک یا خود حکمران۔ آج وزیرِاعظم فرماتے ہیں”جب ہم فرانس کے سفیر کو واپس بھیجیں گے اور تعلق ختم کریں گے تو یورپی یونین سے تعلق ختم ہو جائے گا”۔ یہ اُس وقت کیوں نہیں سوچا گیا جب وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ، وزیرِ مذہبی امور نور الحق قادری اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد تحریکِ لبّیک کے اُس معاہدے پر دستخط کر رہے تھے جس کے مطابق 17 فروری 2021ء تک حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق پارلیمنٹ سے فیصلہ لے گی اور فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گی۔
کیا معاہدوں کے بارے میں وزیرِ مذہبی امور کو بھی اللہ کا فرمان یاد نہیں ”عہد کی پابندی کرو، بیشک عہد کے بارے میں تم کو جوابدہی کرنی ہوگی” (سورة الاسراء 34)۔ سورة البقرہ 177 میں فرمایا ”نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں”۔ اِس کے علاوہ بھی فرقانِ حمید کی کئی آیات میں عہد کی پابندی کا ذکر ہے اور جو لوگ عہد کی پابندی نہیں کرتے اُنہیں نقصان اُٹھانے والا کہا گیا ہے۔ جب تحریکِ لبّیک کے سربراہ نے کہا کہ اگر 17 فروری تک معاہدے پر عمل نہ ہوا تو ہم تحریک چلائیں گے تو حکومت نے باہمی اتفاق سے ضمنی معاہدہ کیا جس کی رو سے فروری کی تاریخ 20 اپریل تک چلی گئی جس کا ذکر خود وزیرِاعظم نے ٹی وی چینل اے آر وائی سے گفتگو میں کیا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ 20 اپریل سے بہت پہلے تحریکِ لبّیک کے سربراہ سعد قادری کو گرفتار کر لیا گیا جس پر ہنگامے پھوٹ پڑے اور انسانی خون ارزاں ہو گیا۔ خون پولیس کے اہلکاروں کا ہو یا تحریکِ لبّیک کے کارکنوں کا، خون تو خون ہے جو بہتا ہے تو جم جاتا ہے۔