تحریر: شاہ فیصل نعیم جب زمانے کے لبوں پہ ہمارا نام آئے گا دنیا زمان و مکاں کی وسعتوں کے باوجود سمٹ جائے گی، وقت پھر تمہیں اُس مقام پہ لا کھڑا کرے گا جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی، اُس سے قبل کیا تھا الفاظ تھے مگر اعمال کی روح سے ماورا الفاظ کو اہمیت ملی ہمارے اعمال کی طاقت سے اورحال کے اندھیروں میں کھوئے ہوئے لوگ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ماضی کے سنہرے ابواب سے روشنی طلب کریں گے زمانہ گزر جائے گا مگر ہمارے عزم و یقین اور دوراندیشی کی داستان ایک چشمہِ فیض کا کام دے گی جو کبھی خشک نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے ہم نے اپنا خون ِ جگر دے کراس کی آبیاری کی ہے۔
اگر میں عظیم انسانوں کا ذکر کروں اور وہ انسان جو اپنی تمام طرح کی عظمتوں کے ساتھ انسانیت کے سر کا تاج ہیں اُن کا تذکرہ نا کروں تو مجھ سابدنصیب اور کوئی نہیں ہوگا۔ مجھے پھر یاد آجاتا ہے یہ آج کا مسلمان جو در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے اور غیروں کی دہلیز سے بہتری کا طلبگار ہے اُس کے لیے سوچنا کا مقام ہے ۔ وہ لوگ جن کے سامنے تم ہاتھ پھیلا رہے ہووہ تو تمہارے آبائواجداد سے رہنمائی لے رہے ہیں اور ایک تم ہو جواپنوں کا در چھوڑے غیروں کی ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ مائیکل ہارٹ کوئی مسلمان نہیں مگر جب وہ قلم اُٹھاتا ہے تو تاریخ میں اُسے اگر کوئی ایسا انسان ملتا ہے جس کا مقصد سب سے عظیم ہو، جو سب کچھ ہونے کے باوجود عام انسانوں کی سی زندگی بسر کرے اور جب اُس کی محنت رنگ لائے تو دنیا انگشتِ بدنداں رہ جائے تو وہ فقط محمدۖ کی ذات ہے۔
Muhammad PBUH
آپ ۖ کی زندگی عزم و یقین اور دوراندیشی کے ابواب سے بھری پڑی ہے مگر میں جس باب سے پردہ ہٹائوں گا وہ آپۖ کی زندگی کا وہ واقعہ ہے جب قریشِ مکہ کہتے ہیں کہ اگر آپۖ کو سرداری چاہیے تو ہم آپۖ کو اپنا سردار مان لیتے ہیں ، اگر آپۖ کو دولت چاہیے تو ہم آپ ۖ کے لیے دولت کے انبار لگا دیتے ہیںاور اگرآپۖ کا مقصد اس تحریک کے ذریعے کسی عورت کا حصول ہے توہم آپ ۖ کی شادی قریش کی سب سے خوبصورت عورت سے کروا دیتے ہیں”۔
ان سب باتوں کے بعد جب محسنِ انسانیتۖ کے لب مبارک کھلتے ہیں اور اپنے چچا(جو قریش کی طرف سے اس پیغام کو لیکر آئے تھے)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “چچا جان! خدا کی قسم یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاندرکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں ، تو میں اس سے باز نہیں آ سکتا ۔ یہاں تک کہ یا اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کردے یا میںاسی جدوجہد میں ختم ہو جائوں”۔ ایک عظیم انسان کا عزم اور مخالف طاقتوں کو سنایا گیا ایک تاریخ ساز فیصلہ جو مجھے کسی اور کی زندگی میں نظر نہیں آتا۔
دوسرے واقعہ کی نسبت واقعہ ِ معراج سے ہے آپ ۖ معراج سے واپسی پر لوگوں کو سفرِ معراج کی اہمیت اور تفصیل بتاتے ہیں ۔ یہ بات ابوجہل کے کانوں میں پڑتی ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ ابوبکر کو اپنے ساتھ ملانے کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا وہ بھاگتا ہو ابوبکر کے گھر جاتا ہے ۔ دروازے پر دستک دیتا ہے اندر سے یارِ غار تشریف لاتے ہیں ۔ ابوجہل آپ سے ایک سوال پوچھتاہے : “ابوبکر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ساتوں آسمان، بیت المقدس اور دنیا کی سیر کی ہے اور مجھے اس پر رات کا صرف تھوڑاسا وقت لگا ہے توتم ایسے شخص کے بارے میںکیا کہو گے”۔
اب ابوجہل کو پورا یقین تھا کہ ابوبکر اس پر یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اتنے مختصر وقت میں اتنا کچھ کر سکتا ہے مگر آپ نے ابوجہل سے ایک سوال کیا: “پہلے مجھے یہ بتائو کہ ایسا کس نے کہا ہے”؟ ابوجہل نے سوچھا کہ لوہا گرم ہے اُس نے کہا : “ایسا تیرا یار محمدۖ کہہ رہا ہے”۔ ابوبکر نے ابو جہل کوکہا: “ابھی تو آپۖ نے اتنا ہی کہا ہے اگر آپۖ اس سے آگے بھی کچھ کہیں تو میں ماننے کو تیا رہوں”۔ وہ ابو جہل جو ایمان کے نقشِ اولین کو آزمانے نکلا تھا اپنا سا منہ لیکر واپس لوٹ آیا۔
لوگو! جانتے ہو ابوبکر کو پھر کیا اعزاز ملا دنیاا ُنہیں صدیق اکبر اور یارِ غار جیسے ناموں سے یاد کرتی ہے۔ آپۖ نے آپ کی عظمت پر مہر ثبت کرتے ہوئے کہا تھا: “سنو لوگو! دنیا میں جس کسی نے بھی مجھ پر احسان کیا تھا میں نے دنیا میں ہی اُس کا حق ادا کر دیا ہے مگر صدیقِ اکبر کے ساتھ غار میں گزرا وقت مجھ پر ایک ایسا احسان ہے جس کا بدلہ میں اس دنیا میں ادا نہیں کر پایا وہ آخرت میں ادا کروں گا”۔ یہ پیار، محبت، صداقت ، عزم اور یقین کی داستانیں ہیں ۔ دنیا ان سے رہنمائی طلب کرتی آئی ہے اور کرتی رہے گی۔