نیویارک (جیوڈیسک) سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے جب چوہوں پر تجربات کئے گئے تو یہ عمر بڑھنے کے باعث بینائی میں پیدا ہونے والے مسئلے ’میکولر ڈی جنریشن‘ کے خلاف موثر ثابت ہوئیں۔
اس کے علاوہ لیبارٹری میں کئے گئے تجربات میں ان ادویات کے انسانی آنکھ کے پردہ بصارت یا ریٹینا کے خلیوں پر بھی مثبت اثرات دیکھے گئے۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں ادویات ایسے اینزائمس کا راستہ روکتی ہیں جن کی وجہ سے وائرس خود کو بڑھاتا ہے۔
یہ نئی تحقیق واضح کرتی ہے کہ یہ دوا ایسی بائیولوجیکل سرگرمیوں کے لئے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے جو جسم میں اشتعال انگیز عمل کو متحرک کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ اس ادویہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ کمزور ہوتی ہوئی بینائی کے علاج کے لئے موثر ہے۔
اس کے علاوہ یہ دوا ان بیماریوں کی شفا میں بھی کارآمد ثابت ہوئی ہے جو سٹم سیل یا ہڈیوں کے گودے کی منتقلی کے بعد ہوتی ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ 2020ء تک دو سو ملین افراد پردہ بصارت کے کمزور ہونے کی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ بہت ہی ضروری ہے۔
کہ وباء کی صورت میں پھیلنے والے اس مرض کے فوری علاج کے لئے پہلے سے بہتر اور موثر طریقہ اپنایا جائے۔ میکولر ڈی جینریشن کی وجہ سے ریٹینا کے قریب تمام سیلز ختم ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ آنکھ کا یہ حصہ صاف دیکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔