برطانوی ادارۂ صحت این ایچ ایس مریضوں کو ایک ایسی دوا دینا شروع کر رہا ہے جو ایچ آئی وی کے انفیکشن میں مبتلا ہونے کے خطرے میں ڈرامائی کمی لا سکتی ہے۔
این ایچ ایس اس سے قبل عدالت میں اس بنیاد پر مقدمہ ہار چکی ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔
تاہم اب کم از کم دس ہزار لوگوں کو تین سالہ طبی تجربے کے دوران ‘پریپ’ نامی یہ دوا دی جائے گی۔
این ایچ ایس انگلینڈ کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں اس بات کا تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ اس دوا کو بڑے پیمانے پر کیسے فراہم کروایا جائے۔
پریپ ایچ آئی وائرس کو مرض پیدا کرنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیتی ہے۔
اس پر فی مریض ماہانہ خرچ چار سو پاؤنڈ آتا ہے اور ابتدائی تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انفیکشن کے امکانات میں 86 فیصد کمی لا سکتی ہے۔
دس ہزار لوگوں پر آزمائش سے واضح ہو گا کہ اسے صحیح لوگوں تک کیسے دستیاب کروایا جائے، یہ کتنی مقبول ثابت ہو گی، اور مریص اسے کتنی مدت کے لیے لیں۔
این ایچ ایس انگلینڈ کے ایچ آئی وی گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر ایئن ولیمز کہتے ہیں: ‘یہ اعلان پریپ کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے کے این ایچ ایس انگلینڈ کا عزم ظاہر کرتا ہے، تاکہ اس دوا کو انگلینڈ میں بڑے پیمانے پر متعارف کروایا جا سکے۔
’فی الحال اس طبی تجربے میں ہزاروں ایسے لوگوں کو پریپ دی جا رہی ہے جنھیں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔’
ہم جنس پرست مردوں کا شمار ان گروہوں میں ہوتا ہے جنھیں ایچ آئی وی لاحق ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
لندن میں ہر آٹھ میں سے ایک ہم جنس پرست مرد کو ایچ آئی وی ہے، جب کہ بقیہ برطانیہ میں اس مرض کی شرح 26 میں سے ایک ہے۔
25 سالہ ہیری ڈاڈ کا شمار ان 500 ہم جنس پرستوں میں ہوتا ہے جو تجرباتی طور پر پریپ لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘میں نے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر سراسیمگی دیکھی ہے جو اپنے ایچ آئی وی کے ٹیسٹوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑا خوف ہے جو ہر چیز پر اثر انداز ہوتا ہے۔’
تاہم ہیری کا خیال ہے کہ پریپ کا استعمال سماجی طور پر ابھی تک قابلِ قبول نہیں بن سکا۔ ‘بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دوا لوگوں کو عیش و عشرت کی زندگی کی طرف راغب ہونے پر اکسائے گی۔
‘اس کی مثال وہی ہے جب عورتوں کے لیے مانعِ حمل گولیاں متعارف ہوئی تھیں۔’
ڈاکٹر مائیکل بریڈی کہتے ہیں کہ پریپ کے حق میں نتائج بہت واضح ہیں، لیکن اس تجربے سے معلوم ہو گا کہ اس کے اصل زندگی میں کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔