گرد سے اٹا چہرہ،جسم پرچیتھڑے، قرضوں کا بوجھ اٹھائے،مہنگائی کاخوف سرپر سوار اورسراپا بیچارگی، یہ ہے ہمارے معاشرے کا مزدور،ہزارغم جس کے سینے میں دفن،ان گنت پریشانیاں جس کی پیشانی سے عیاں مگر پھر بھی تھکن کے ہزاروں پیمانوں کو مات دیتا اورکئی خواہشوں کا خون کرتا صبح سے شام تک اپنے وجود سے بھی بھاری بوجھ یہاں سے وہاں منتقل کرنے میں جتا ہوا ہے۔ مضمحل قویٰ کو چند ثانیے سکون دینے کے لیے آرام تو درکنار اپنی رفتار ہی معمولی کم کربیٹھے تو مالک کی کھا جانے والی نظریں اس کا تعاقب کرتی ہیں،یوں وہ پھر سے خود کو جبراً تازہ دم ظاہر کرتے ہوئے گھسٹتے پائوں کے ساتھ ہلکان کیے جاتا ہے۔گھر سے نکلتے ہوئے صبح گھر والی نے روکھی سوکھی روٹی باندھ دی تھی ایک رومال میں ، دوپہر ہوتی ہے تو اس کو پانی کے گھونٹ کے ساتھ حلق سے اتار کر پیٹ کی آگ بجھا لیتا ہے۔
آج اس مزدور کے ساتھ اظہار ہمدردی کا عالمی دن ہے،آج سرخ جھنڈے لہرائے جائیں گے اوردنیابھر کی طرح وطن عزیز میں بھی مزدور کے ساتھ حسن سلوک کی باتیں ہوں گی،مزدور کا دل بہلانے کے لیے اس کے حقوق کی پاسداری کی قراردادیں پیش ہوں گی، بڑے بڑے سیمینارز اوراجتماعات ہوں گے مگر ان ائیر کنڈیشنڈ ہالز میں مزدوردکھائی نہ دے گا۔اس کی زندگی کے اوقات کی تلخی میں آج بھی کمی نہیں آپائے گی۔آج منافقانہ جذبات کے ساتھ اس کی دلجوئی کرتے ہوئے شریعت سے دلائل بھی دیئے جائیں گے اور قانون کے حوالے بھی پیش ہوں گے مگر مزدور کے دامن کی شکستگی یونہی برقرار رہے گی۔جس کے حقوق کی باتیں ہورہی ہوں گی وہ تو آج بھی مزدور ی کی تلاش میں چوک ، چوراہے میں کھڑا کسی مزدوری کروانے والے کا منتظر ہوگا۔
جی ہاںایسا کیوں؟ آج تو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن چھٹی کرکے منایا جارہاہے،اس سے ہمدردی کے راگ الاپے جارہے ہیںمگر ظالم نظام اورغاصب سماج سے سوال ہے: ذرابتائیے !تو سہی آج کون سا مزدورہے جسے چھٹی ہے؟ہاں!آج چھٹی ہے ایگزیکٹوز کی ، آج چھٹی ہے ڈائریکٹرز کی،آج چھٹی ہے آفیسرز کی،وہ تو پہلے بھی کام کرنے میں کسی کے پابند نہ تھے،ان کا توہر دن پہلے ہی یوم عید اورہر رات شب برات تھی۔ہاں مزدور نے اگر آج بھی چھٹی کر لی ہوتی تو بھوک سے بلکتے منتظر اس کے بچے روٹی کہاں سے کھائیں گے؟ صبح گھر سے چلتے ہوئے اس کے بیٹے کو کاپی کی ضرورت تھی،بیٹی نے قلم مانگا تھا ، چھوٹی بیٹی نے دامن سے چمٹ کے کہا تھا بابا! آج تو چھٹی کا دن ہے،آپ آج بھی کام پر جائیں گے؟ تو مجبور باپ نے نم آنکھوں کے ساتھ بیٹی کو پیار کرتے ہوئے کہا تھا:”مجھے چھٹی اچھی نہیں لگتی”ہاں! اگر آج وہ چھٹی کر بیٹھتاتو ان معصوموں کی خواہشیں پھر سے مٹی میں جذب ہوجاتیں۔ شاید اسی لیے ہر مزدور تو بس یہی کہتا ہے مجھے چھٹی نہیں چاہیے،مجھ سے آج بھی کام کروا لو،بلکہ دوچار گھنٹے کی مشقت اور بڑھا دو تاکہ میں ننھی فرمائشوں کو پورا کرسکوں۔
کسب معاش کی دنیا میں آفیسر ہوتے ہیں یا ملازم، انہیں تو چھٹی کے دن کی اجرت کے سوا بھی بہت کچھ مراعات میسر ہوتی ہیں مگر مزدور تو وہ ہوتا ہے جو ہر صبح ”دیہاڑی” لگنے کی امید لے کر نکلتا ہے کبھی بامراد کبھی نامراد لوٹتا ہے۔سوچئے!جسے دن بھر کہیں مزدوری نہ ملی ہووہ جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو اس کے د ل میں کتنا کر ب اوردماغ پر کتنا بوجھ ہوتا ہے ،شاید اس کو ناپنے کے لیے ابھی کوئی پیمانہ ایجاد ہی نہیں ہوا ہے۔وہ تو ایسا محروم تمنا ئی ہے کہ جو چھونے سے بکھر جائے گا۔
اے کاش! مزدور سے ہمدردی کے لیے منائے جانے والے اس دن کے موقع پر کوئی ایساقانون تشکیل پاتا جو”ڈیلی ویجز” کو بھی آج اجرت کی محرومی سے بچاپاتا۔ کوئی شق تو ایسی ہوتی جس میں سڑک کنارے کھڑے مزدور کو آج کی مزدوری بیت المال سے ادا کرنے کا مطالبہ ہوتا۔
اے کاش! آج کے دن مزدور کی اجر ت میں اضافے کا کوئی ایساقانون پاس ہوتاکہ اس کے گھر میں بھی خوشیوں کے بسیرے ہو سکتے ،نہیں نہیں !خوشیاں نہیں فقط ضرورتیں ہی پوری ہوپاتیں۔کوئی ایسی قرار داد پیش ہوتی کہ مزدور سے ا س کی طاقت سے بڑھ کر لی جانے والی مشقت پر روک لگتی ، کوئی تو کہتاکہ مزدور کی عزت نفس کو بھی تحفظ حاصل ہونا چاہیے ، کوئی ایسی بھی شق زیر بحث آتی کہ اس میں ماں کی بیماری کی وجہ سے ڈیوٹی پر نہ آسکنے والے مزدور کو بغیر مزدوری کئے ایک دن کی اجرت کا حق ملتا،کسی عزیز کی وفات کے باعث دودن ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے والے مزدورکو بہانے سے نہ نکالنے کی بھی کوئی تجویز ہوتی ،دوران ملازمت چوٹ لگنے کی تلافی کی بھی کوئی بات کرتا۔اندازے سے کم منافع ہونے پر دس مزدوروں کے کام کا بوجھ پانچ پر ڈال کر کمی پوری کرنے کی بیخ کنی کی بھی کہیں سے آواز بلند ہوتی۔معاشرتی رسومات کے ہاتھوںمجبور شادی کے اخراجات برداشت نہ کرسکنے والے مزدور کی بیٹی کے سر میں اترتی چاندی کے لیے بھی کسی کے دل میں احساس جنم لیتا ۔حالات کے جبرکے شکار نرم ونازک ہاتھو ں میں پکڑے بھاری اوزار کے بوجھ تلے دبے مزدوری کرتے معصوم بچوں سے ہمدردی اوران کے گھرکے اخراجات کے لیے بھی کوئی قانون انگڑائی لیتا۔ اے کاش!