ماہِ صیام کی با برکت ساعتیں ہم پر سایہ فگن رہنے کے بعد رخصت ہو چکی ہیں۔ بندہ ِ مومن کے حق میں نیکیوں کے موسم ِ بہار کی فیصلہ کن رات بھی گزر چکی ہے۔رب العالمین اپنے بندوں کی مغفرت و بخشش کرتے ہوئے عید کی صبح انعام بھی دے چکے ہیں ایسے حسین ماحول میں وطن عزیز میں وحشتوں کی الم ناک داستانیں۔۔۔۔۔پگھلتی ساعتوں کو موم کی جلتی بوند کی صورت وجود کو دہکا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔روم روم کو آبلے کی صورت دے رہی ہیں اُجڑی بستیوں کے نوحے ہیں۔۔۔۔۔۔لہولہو روحیں جو ہر ٹیس پر کراہنے کے بعد سانس لے رہی ہیں۔
نارنگ منڈی کی سیماب کاباپ اپنے ادھورے پن کو کس کے نام سے منسوب کرے وہ دکھی ہے ۔۔۔۔۔۔؟ اُس کی جواں سا ل بیٹی نے اسلام پورہ کے ایک کالج کے ہاسٹل کی چھ منزلہ عمارت سے چھلانگ لگائی اور موت کی تاریک تہوں میں گم ہو گئی گھر کا واحد کفیل بوڑھا باپ جب بیماری کی لپیٹ میں آیاتو گھر میں فاقوں نے ڈیرے ڈال دیئے سیماب نے روز گار کی خاطر بادل نخواستہ دہلیز پار کی تو زندہ دلوں کے شہر میں ایک اخبار میں جاب کرلی دو ماہ سے جب تنخواہ نہ ملی تو بیمار باپ کی دوائی کا کوٹہ ختم ہو گیا اورگھر میں نوبت ایک بار پھر فاقوں تک پہنچ گئی گھر سے بار بار فون آرہے تھے اور اخبار والوں سے بار بار تقاضے کے باوجود تنخواہ ملنے کی امید دم توڑتی گئی سیماب نے انتہائی قدم اٹھایااور زندہ دلوں کے شہر کو ہمیشہ کیلئے خدا حافظ کہہ دیاجواں بیٹی کی لاش گھر آئی تو بوڑھا باپ ذہنی توازن کھو بیٹھا لاش پر کھڑاوہ بار بارکہہ رہا تھا یہ میری سیماب نہیںاُسے آج تک اپنی بیٹی کے زندہ بچ جانے کی اُمید ہے ۔۔۔۔۔۔ لاشوں کی بستی میں اُسے اُس کے آنے کا انتظار ہے۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں ۔۔۔۔ اُس کے خزاں رسیدہ چہرے کو کون سکون دینے کی کوشش کرے گا۔ ۔۔۔۔۔ ؟ کون اُس کے ضعیف کندھوں کا سہارا بنے گا۔۔۔؟ کون اُس کے زخموں کو محسوس کرے گا۔۔۔۔؟ فلسطین کی کنزہ ہے کہ 2010اسرائیل کی جارحیت کی صورت آنیوالی قیامت نے اُس کے دو بچوں اور خاوند کو تہہ آب سُلا دیا ۔۔۔۔؟ اُس کے کان پھاڑ دینے والے بینوں کی گونج ابھی تک باقی ہے۔۔۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں ہیں کس طرح اندھیری راہوں کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔۔ہر سوویرانی ہے ،لاشیں ہیں،بوجھل سانسیں ہیں ،کرچی کرچی وجود ہے، ان ویرانیوں نے اُس کا دامن تھامنا ہے ،اُس نے اُن کا سہار ا بننا ہے ،بھلا روشنیاں کب اُس کی ہیں،اُس کی مانگ کے لئے کہکشاں بنی ہی نہیں۔۔۔۔ خوشیوں کے لئے تو صدیاں چاہیئیں۔۔۔۔اُس کے پاس تو لمحے ہیں جو ریت کی مانند گرتے جا رہے ہیں ،وہ بہت تہی دست ہے۔
اُس کے پاس تو اپنی روح بھی نہیں رہی، اُس کے تو آنسو بھی اُس کے اپنے لیے نہیں، اک دکھوں کی ویرانیوں کی باز گشت ہے جو رہ رہ کر دل کی وادیوں سے ٹکراتی ہے، خوشیاں کیا ہیں کچھ یاد نہیں رہا، کتنے دردو الم ہیں جو اُس کی راہ کی رکاوٹ بنے کھڑے ہیں پتا نہیں جینے کا ہنر کہاں ہے۔۔؟ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میںپڑے مغیث اور سویرا شاید اب کبھی نہ جان سکیں کہ ماں کی گود کی گرمی کیا ہوتی ہے ، ماں کے سینے سے چمٹ کر کتنا سکون ملتا ہے ،اُنھیں تو یہ بھی علم نہیں کہ بن ممتا کے سگے خون کے رشتے فقیروں جیسا سلوک کرتے ہیں ، کچھ دیتے بھی ہیں تو خیرات سمجھ کر ، کس قدر حقیر ہوجاتا ہے وجود ماں باپ کی چھائوں کے بغیر ، پھر یتیموں کے آنسو اتنے رُخساروں پر نہیں گرتے جتنے دل پر گرتے ہیںاور منہ سے تھپڑوں کے نشان تو مٹ سکتے ہیں مگر روح پر لگے زخم مندمل نہیں ہو سکتے۔
Eid-ul-Fitr
اس عید پر مغیث اور سویرا جیسے کہہ رہے ہوں۔۔۔۔ ہم جیسے بچوں کا سڑکیں مذاق اُڑاتی ہیں ،رستے طعنے دیتے ہیں ،موسم ترس کھا کر دیکھتا ہے، نفرت ہے ہمیں محرومیوں سے، بے چارگی سے ، بے مائیگی سے ۔۔۔ شاید اس لیے کہ یہ سب طوق بن کر ہمارے گلے میں جھول رہے ہیں بُری طرح ہمیں قید کیے ہوئے ہیں۔
والدین کی شفقتوں کے بغیر تو ہر بچہ غلام ہو جاتا ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی جب بغاوت کا احساس جنم لیتا ہے۔۔۔۔ توہر شب آزادی آزادی پکارتے ہوئے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن ہر طلوع ہوتی ہوئی صبح کے ماتھے پر شکست تحریر ہوتی ہے اور شکست میں قید جھانکتی ہے ۔۔۔۔۔ قید میں تو زندگی سسکتی ہے، سلگتی ہے۔۔۔۔چیختی کرلاتی ہے بالآخر چپ ہو جاتی ہے مگر دل دھڑکتا ہے کہ ہمارے دل کو تو پاپا اور مما کا انتظار ہے۔۔۔۔۔جنہیں خبر نہیں کہ ہم ایسے ہو گئے ہیں جیسے آسمان پر پہنچنے سے پہلے لوٹ آنیوالی دعا۔۔۔۔۔ماں ہم بکھر رہے ہیں ۔۔۔۔بھٹک رہے ہیں ہمیں بھٹکنے سے بچا لو۔۔۔۔بستی کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھی یہ جواں سال بیوہ روٹی کو ترستے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ، فاقہ زدہ چہرے اَن کہی داستانیں سنارہے ہیں۔پچھلے برس عید کی خوشیاں ان کا مقدر تھیں لیکن آج عید کہاں اور کیسے منائیں۔
ننھا اشفاق ماں سے پوچھ رہا ہے امی جان سب لوگ کہہ رہے ہیں آج عید ہے ۔۔۔ ابو تو اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں وہ کیسے عید منائیں گے؟ ہمیں کپڑے کون لے کر دے گا۔۔۔؟ ہم کس کے ساتھ عید نماز پڑھنے جائیں گے اور پھر ایک درد ناک چیخ ۔۔۔ دل میں ٹیسیں اُٹھتی ہیں تو زباں سے آہ نکلتی ہے۔۔۔۔ یہ باپ کے ساتھ بیٹھاخاموش نوجوان دو بھائی روشنیوں کے شہر گئے کہ قیامت آگئی لڑکھڑاتے قدموں سے گھر پہنچا تو باپ کا آنسوئوں سے بھرا چہرہ سامنے تھا،بھائیوں کو موت کے خونی جبڑوں نے باپ کے سامنے نگل لیا۔دومعصوم بچوں کی ماں چار دنوں سے فاقوں میں ہے ،ایسے میں کیا چہرے اُداس نہ ہوں۔۔۔؟ کیا ایسی قیامتوں پر کسی دھرتی پر مسرتوں کے گلاب مہک سکتے ہیں ۔۔۔۔؟ غمگین لمحوں کی کہانیاں۔۔۔۔ ہر دل پر دکھ ، غم کی سل رکھ دی گئی ہو تو بہتے جھرنوں کی بات کروں ،بہاروںکی داستانیں سنائوں ،حسین شاموں اور رنگین لمحوں کے قصے سنائوں تو کس طرح۔۔؟ جب چہرے لہو لہو ہوں ، آنکھیں اشک بہا بہا کر تھک گئی ہوں۔۔۔ہچکیوں اور سسکیوں پر قابو نہ ہو۔۔۔۔ عدم تحفظ ،خوف ، بے اطمینانی ، لاوارث بچوں کو سیاہ ہیولے کی طرح اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہوں۔۔۔
جب دل آنے والے دنوں سے خوف زدہ ہوکر دہل جاتا ہو، چہرے دھواں دھواں ہوںتو وہاں بھی کیا عید خوشیاں لے کر آتی ہے۔۔۔۔؟ سلام اُن دلوں کو جن کے درد نے عید پر مصیبت زدگان کو یا درکھا،اُن کے غم اور محرومی کو اپنا دکھ سمجھا ،سلام ہے اُن چہروں پر جنہوں نے عید پر گھروں میں نہ میٹھا پکایا نہ خوبصورت لباس پہنا اور نہ ہی اُن پر مسکراہٹ سجائی،یہ چند لوگوںکی کہانی نہیںیہ کہانیاں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہیں۔۔۔ جو زندہ ہیں مگر زندگی کے لیے ترس رہے ہیں، بھوک فاقوں ،غربت ،بیروزگاری جیسی بیماری سے جن کے قدم پَل پَل موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔