تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی جو لوگ یورپ امریکہ برطانیہ جاتے ہیں وہ اچھی طرح وہاں کی تہذیب کا مکروہ چہرہ دیکھ چکے ہیں، کیونکہ یہ سچ ہے کہ وہاں پر انسان اپنی خودی اور پہچان کو یکسر بھول چکا ہے۔ آپ کسی بھی غیر مسلم ملک چلے جائیں وہاں پر جانور نما انسان ایک دوسرے سے لپٹے نظر آتے ہیں، ماں بیٹی بہن بیوی کیا ہے، ان کا تقدس کیا، وہ اِس کی ابجد سے بھی واقف نہیں سچ تو یہ ہے، کہ وہ انسان جانوروں یا مشینوں کا روپ دھار چکے ہیں۔
‘کھا یا پیا جنسی مشاغل سے گزرے اور دنیا سے چلے گئے خاندانی روایات تہذیب اخلاقیات شرم و حیا کیا ہیں وہ بلکل بھی نہیں جانتے یہ اثاثہ صرف مسلمانوں کا ہی ہے، مجھے جب بھی کوئی نوجوان یورپ امریکہ جانے کے لئے ملتا ہے تو مجھے اُس پر ترس آتا ہے، کہ یہ معصوم یہ نہیں جانتا کہ وہ کس بے حیائی بے شرمی بے حسی کے سمندر میں غرق ہونے جا رہا ہے۔ وہاں جب بھی کوئی غیر ملکی جاتا ہے، تو اُس کلچر کی چکا چوند روشنیوں میں اِس طرح گم ہو تا ہے، کہ اپنی روایات کو بھی بھول جاتا ہے اہل یورپ کسی دوسرے انسان کی عزت احترام سے واقف ہی نہیں ہیں، اُن کے اپنے ہی قاعد ے قانون ہیں مادر پدر آزادی کے جنون میں وہ رشتوں کا احترام پوری طرح بھو ل چکے ہیں۔
کیونکہ وہ مذہب ‘خدا اورپیغمبروں کو بھی بھول چکے ہیں، اِس لیے جب بھی کوئی مسلمان پیا رے آقا ۖ کی حر مت پر سینہ ٹھوک کر باہر آکر احتجاج کرتا ہے یا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے، تو وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ خوفزدہ کیوں وہ اِس لیے کہ زندگی کسی بھی ذی روح کے لیے سب سے قیمتی ہے، وہ ساری زندگی اِس کی بقا کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اپنی زندگی کو آرام دہ طا قتور اور طویل عرصے تک قائم رکھنے کے لیے وہ شب و روز کو شش کر تا ہے۔ دوسروں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح پائوں تلے روندتا چلا جاتا ہے، لیکن جب اہل یو رپ دیکھتے ہیں، کہ تاریخ کے جس بھی دور میں دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی ملعون جہنمی نے سید الانبیا ء ۖ کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی تو کڑوڑوں مسلمان پروانوں کی طرح سراپا احتجاج بن گئے۔ یہ تحریک جذبہ اور عشقِ رسول ۖ اُنہیں بہت نا گوار گزرتا ہے، کیونکہ وہ مذہب خدا کو ترک کر چکے ہیں اور جانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان اور ان میں بنیادی فرق یہ جذبہ جنون اور عشق ہے تو وہ عرصہ دراز سے اِس کوشش میں لگے ہوئے ہیں، کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے اند ر یہ عشقِ رسول ۖ کا جذبہ اور جنون ختم کر دیں۔
Muhammad Love
کیونکہ اگر خدا نہ کرے وہ کامیاب ہو جائیں تو مسلمان بھی راکھ کا ڈھیر ہی رہ جائیں گے، وہ بار بار ایسی ناپاک حرکتیں کرکے یہ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے یہ متاع حیات چھین لی جائے، لیکن وہ ہر بار ناکام ہوتے ہیں آج ہمارے ملک میں بھی مغرب نوازی کی جگالی کرنے والے دانشور جو یہ کہتے ہیں، کہ مغرب مذہب سے الگ ہو کر پر امن اور کامیاب ہو گیا۔ تو اُن کی اور اہل یورپ کی خدمت میں عرض ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں، کہ مذہب سے آزادی کے بعد یورپ پر امن ہوگیا ہے، تو اِس سے بڑا تاریخی جھوٹ اور کوئی نہیں مذہب سے آزادی کے بعد بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں لڑیں گئیں، جس میں کروڑوں لوگ موت کے سمندر میں اتار دئیے گئے، ہزاروں شہروں کو برباد کر دیا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو اپاہج بنا دیا گیا کیا۔
اُس وقت یورپی ممالک سیکولر نہیں تھے، اِن جنگوں میں نہ کوئی مذہبی واردات ہوئی نہ کوئی ملاں پادری سامنے آئے تو پھر ایٹمی ہتھیار کیوں استعمال ہوئے کروڑوں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا اور نسلوں کی نسلیں لاشوں میں بدل دی گئیں، مسلمان جب سرتاج الانبیاء ۖ کی حرمت کی جنگ لڑتے ہیں، احتجاج کر تے ہیں، اپنی جانیں نذرانے کے طور پر پیش کر تے ہیں، تو یورپ حیران اور اعتراض کرتا ہے۔ کیا یورپ نے کبھی کوئی مذہبی جنگ نہیں لڑی چند حقائق قارئین کی نذر کر تے ہیں۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں جب 27 اگست 20 عیسوی میں رومن لشکر یروشلم میں دندناتے داخل ہوئے اور اُسے کھنڈر میں تبدیل کر دیا اور معبد سلیمانی کو جلا کر خاکستر کر دیا اور پھر 131 عیسوی میں یہودیوں کو عبادت سے منع کیا گیا، تو انہوں نے رومنوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، اور جب 135عیسوی میں اِن کو شکست ہوئی تو یہودی وہاں سے بھاگ کر یورپ کے مختلف ممالک میں پھیل گئے۔
کیو نکہ یہودیوں کی سرشت میں منافقت اور جھوٹ تھا۔ جہاں بھی گئے منفی سر گرمیاں اور سازشیں کر تے رہے۔ اپنی اِن مکروہ حرکتوں کی وجہ سے قابل نفرت سمجھے گئے۔ یہودیوں کی اِن منفی شیطانی حرکتوں کی وجہ سے بہت سارے لوگ اِن کے خلاف ہوگئے، جن میں ہٹلر سر فہرست تھا، لیکن برطانیہ اور امریکہ نے خفیہ معاہدے کے تحت 1948 میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر دیا، اور پھر دنیا بھر کے بد معاش اعظم امریکہ نے یہودیوں کی پشت پناہی کی اور یو رپ کے تقریبا ً ہر ملک میں یہودی کی حمایت میں ایسے قوانین بنوائے جن کے تحت یہودیوں کے خلا ف گفتگو کرنا نفرت پھیلانا انہیں برا بھلا کہنا جرم قرار دیا گیا۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی دیکھیں کہ اُس نے اپنی طاقت اور دھونس سے اِیسے قوانین بنوائے کہ یہودیوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ اِس کا مطلب یہودی نعوذباللہ نبیوں اور خدا سے بھی بڑھ کر ہیں، اور یہ سچ ہے کہ آج دنیا بھر کے بہت سارے ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ آپ نجی محافل میں بھی اُن کے خلاف گفتگو نہیں کر سکتے ورنہ پولیس آپ کو پکڑ سکتی ہے، جو لوگ یورپ کی روشن خیالی اور آزادی اظہار کی جگالی کرتے ہیں اُس کو ایسے قوانین کی جھلک دکھائیں، جو صرف یہو دیوں کی عزت کے لیے بنا ئے گئے ہیں۔
German Law
جرمنی قانون جو 1985 میں پاس ہوا، اس کے آرٹیکل 194-21کے تحت یہودیوں کے خلاف نفرت کو انسانی وقار کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ اور اِسی قانون کو 1994 میں ترمیم کے ساتھ اب قابل دست اندازی پو لیس بنا دیا گیا ہے۔ فرانس میں بھی ایسا قانون 1990 میں بنایا گیا، جس کے آرٹیکل 24-Bکے تحت یہودیوں سے نفرت کرنا اور اِس کا اظہار کرنا جرم ہے۔ اٹلی میں 1963، برازیل میں 1989، لیٹویا میں 1990، سلووکیا میں 2001، پولینڈ میں 1999، لکسمبرگ میں1997، ڈنمارک میں 1996، برطانیہ میں 1997، ناروے میں 2000، ہالینڈ میں 2003، اسٹریلیا میں 2004، اور سب سے بڑھ کر منافقت تو اقوام متحدہ نے کی جب 1992 میں یہ قرار دار پاس کی کہ یہودیوں کے خلاف نفرت کو ایک خطرے کے طور پر جانا جائے، اور اِس کے خلا ف جنگ کی جائے ظلم حیرانی اور ڈھٹائی دیکھیں کہ اگست 2005 میں، یہ اسٹریلیا اسرائیل کینیڈا اور امریکہ نے اقوام متحدہ سے پاس بھی کروایا کہ 27 اگست کو عالمی ہالو کاسٹ دن کے طور پر منایا جائے یہ وہی دن تھا، جب 70عیسوی میں روس لشکروں نے یروشلم کے یہودی شہر کو کھنڈر بنا دیا تھا۔ اور پھر اِن قوانین کے تحت بے شمار لوگوں کو سزائیں بھی دی گئیں۔
گرفتاریاں ہوئیں ایسے اخبارات رسائل ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ سائٹس کی فہرست تو بہت ہی طویل ہے، جن پر اِن قوانین کے تحت پا بندیاں لگائی گئیں۔ یہودی لابی پو ری دنیا میں اپنے اور امریکی اثر رسوخ کے بل بوتے پر اپنی حکومت قائم کئے ہوئے ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے، اپنی بقا عزت اور مرضی کے قوانین بنواتی ہے۔ اور جب مسلمان پیارے آقا دو جہاں ۖ کی عزت پر قانون سازی اور سزا کی بات کرتے ہیں تو روشن خیال دانشور اور مغربی جانور نما انسان کو غصہ آتا ہے، کہ یہ تو اظہار خیال کی آزادی ہے یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہودی نسل جو کرئہ ارض کی سب سے مکروہ قوم ہے، جو معصوم فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کئی سالوں سے کاٹ رہی ہے اُس کی عزت کے لیے قوانین بنائے جائیں تو درست اور اگر محسنِ اعظم ۖ نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان کی ناموس اور حرمت پر قانون سازی کا تقاضہ کیا جائے، تو یہ جہالت ہے۔ جب بھی شافع محشر کی شان میں گستاخی ہوگی تو ڈھیڑھ ارب مسلمان پروانوں کی طرح اپنی جانیں حرمت رسول ۖ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہونگے کیونکہ مسلمان کا ایمان مکمل ہی اُس وقت ہو تا ہے، جب وہ آقا ۖ کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خو اجہ بطحا کی عزت پر خدا شاہد ہے کا مل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org