اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ”عدل کرو یہ پریز گاری کے زیادہ قریب ہے”(المائدة:٨) بخاری کی حدیث ہے” رسولۖ اللہ نے فرمایا قیامت کے دن جب کہ اللہ کے سایہ کے سواکوئی دوسرا سایہ نہ ہو گاسات شخصوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں لے گا، جن میں سے ایک شخص امام عادل(منصف حاکم) ہو گا”( بخاری) لغت کے اعتبار سے عدل کے معنی برابری اورا نصاف کے ہیں کسی بھی چیز میں کمی یا بیشی نہ کرنے کو عدل کہتے ہیں معاشرے کے اندر اگر عدل نہ ہو تو معاشرہ درہم برہم ہو جاتا ہے اس کا امن وسکون ختم ہو جاتا ہے جو تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہوتا ہے اِس وقت ہمارے ملک کایہی حال ہے . . . تاریخ اسلام میں بے شمار ججز( قاضی) گزرے ہیں جنہوں نے انتہائی دیانت داری، بے خوفی اور حد درجہ جرأت ودلیری کے ساتھ عدل و انصاف کی مشعل کو فروزاں رکھا اور اپنے فیصلوں میں کسی خوف لالچ کا گزر نہیں ہونے دیا کسی بھی بڑی شخصیت یا حکمران وقت کا لحاظ نہیں کیا صرف اللہ سے خوف کھا کر فیصلے کیے جر م کرنے والا بڑا ہو یا چھوٹا ہو اس کی پرواہ نہیں کی۔
صاحبو! اگر اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پاکستان کی عدلیہ اور بحثیت چیف جسٹس چوہدری افتخار احمد صاحب اور تصدق حسین گیلانی صاحبان کے فیصلوں پر گفتگو کریں تو بات کچھ اس طرح بنتی ہے اس دور میں ساری دنیا میں انگریزوں کے بنائے ہوئے انگریزی قانون کے تحت عدلیہ فیصلے کرتیں ہے جو قانون شہادت کہلاتا ہے پارلیمنٹ قانون بناتی ہے عدلیہ اس کے تحت فیصلے کرتے ہیں اور عدلیہ کے فیصلوں پرعمل وقت کی حکومت کراتی ہے پاکستان کی عدلیہ کو حالات کے جبر کی وجہ ے بار بار ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑے جس کی وجہ سے عدلیہ بدنام ہوئی۔ اِس کی بڑی وجہ فوجیوں کی ڈکٹیٹر شپ ہے سب سے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب نے آئین کو توڑا سول حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا دس سال تک یہ ڈکٹیٹر حکومت کرتا رہا جب عوام اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو جنرل یخییٰ کو اقتدار دے گیا۔ بعد میں بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کو ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا نواز شریف کی منتخب حکومت پر جنرل مشرف نے قبضہ کر لیا فوجی ڈکٹیٹروں نے بار بار ائینِ پاکستان کو توڑا۔
آئینی حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیا اس دوران ججوں کو مارشل لا کے تحت نئے سرے سے حلف اُٹھانے پڑے کچھ ججز نے ہمت کر کے انکار کیا کچھ نے حالات کے جبر کے تحت حلف اُٹھائے اور مارشل لاء کے تحت فیصلے کیے جس میں نظریہ ضرورت بھی ایجاد ہوا بہر حال جب ڈکٹیٹر مشرف نے چوہدری افتخار احمد صاحب کو معزول کیا ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب چیف جسٹس نے آمر کی بات ماننے سے انکار کیا اور تحریک چلائی جس میں وکلاء نے احتجاج شروع کیا تو اس احتجاج میں سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی، عوام اور میڈیا نے بھر پور شرکت کی بلا آخر لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا جب یہ مارچ گجرنوالہ تک پہنچا تو فوج کی مداخلت سے ایک فیصلے پر پہنچا گیا۔
Iftikhar Ahmad Chaudhry
جس کی وجہ چیف جسٹس اور نظر بند ججزپورے وقار کے ساتھ بحال ہوئے اس کے بعد پاکستان میں عدلیہ کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی ہے جسٹس افتخار احمد چوہدری نے اپنے فیصلوں کے ذریعے بدمست بیوکریسی کو نکیل ڈالی۔ بدعنوان سیاستدانوں کو قانون کے کہٹرے میں لایاگیا۔ بدنام زمانہ این آر او کو کا لعدم قرار دیا۔ صدر مملکت کے خلاف مقدمات کھولے۔ایک وزیر اعظم کو عدلیہ کی حکم عدولی پر برخاست کیا۔ دوسرے وزیر اعظم پر کرپشن کے مقدنے قائم کیے جواب بھی عدالت میںچل رہے ہیں جعلی ڈگریوں کی وجہ سے سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا کرپٹ حکومتی اہلکاروں سے عوام کی لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر ملک کے خزانے میں جمع کروائی کراچی پاکستان کے معاشی حب کا امن وامان جو ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے اس پر ازخود نوٹس لیکر درست کرنے کی کوشش کی اب پولیس والوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پارٹیوں نے کراچی میں اپنے اپنے اسلحہ بردار ونگ ختم نہ کیے تو ان سب کی لسٹیں عوام کے سانے جاری کر دی جائیں گی۔
سب سے بڑی بات کہ آیندہ کے لیے مارشل لاء کا رستہ بند کیا اور پاکستانی تاریخ میں پہلی بار فوج نے پارلیمنٹ میں آکر اعلان کیا کہ فوج نے آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ بند کر دیا ہے کیا کیا بیان کیا جائے ایک روشن مثال قائم کی اور عدلیہ کا وقار بحال کیا پاکستانی عدلیہ کی ایک روشن تاریخ کی بنیاد رکھ کر چیف جسٹس صاحب الوداع ہوئے اور ان کو معزول کرنے والے ڈکٹیٹر مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا ہے. اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے تا کہ آیندہ کوئی ڈکٹیٹر سیاسی نظام پر شب خون نہ مار سکے اور عوام آزاد رائے سے اپنے نمایندے چن کر حکومت کر سکیں اب ہم جناب جسٹس تصدق حسین گیلانی کو ویلکم کہتے ہیں جنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا ہے۔
ان کا ملتان سے تعلق ہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے رشتہ داری ہے2007ء میں انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اسی سال 3 دسمبر کو ان کو سپریم کورٹ میں دوسرے ججوں کے ساتھ ڈکٹیٹر مشرف کے صدارتی حکم کے تحت کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ پھر 2009ء میں دیگر ججوں کے ساتھ زرداری کے صدارتی حکم کے تحت بحال کر دیے گئے تھے جسٹس صاحب نے بھی اہم مقدمات میں تاریخی فیصلے کیے لاہور میں جعلی ادویات کی وجہ 100 ہلاکتوں پر ازخود نوٹس لیا عدلیہ بحالی کے بعد نواز شریف کو انتخابات کے لیے اہل قرار دینے والے بنچ کے سربراہ تھے افتخار احمد چوہدری کو اپنا رول ماڈل کہتے ہیں آئین اور قانون پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں 7٧ ماہ بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے اس کے بعد جسٹس ناصر الملک چیف جسٹس کی ذمہ داری سنبھالیں گے وہ بھی 13 ماہ کے بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے کچھ بھی ہو عدلیہ میں جو ریت جناب افتخار احمد چوہدری ڈال گئے ہیں وہ قائم و دائم رہے گی عوام کو ریلیف ملتا رہے گا انصاف کے تقاضے پورے ہوتے رہیں گے سرکش گھوڑوں کو لگام کے اندر رہنا پڑے گا اداروں کو تقویت ملے گی یہ سب آزاد عدلیہ کی وجہ سے ممکن ہوا اس کا سہرا جناب افتخار احمد چوہدری کے سر جاتا ہے جو ایک اصولی موئقف پر ایک ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ گئے اور قوم کے لیے نئے راستے گھول گئے۔
قارئین! جیسے شروع میں کہا گیا ہے جس معاشرے میں سے عدل اُٹھ جائے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے جیسے پاکستان کا حال ہے اب عدلیہ کے دانشمندانہ فیصلوں اور آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہونے سے امید پیدا ہو گئی ہے کہ عوام کے لیے انصاف اور اُن کے حقوق کے راستے کھولیں گے ہر ادارہ اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کریگا پارلیمنٹ قانون بنائے گی عدلیہ اس کی تشریع کرے گی حکومت کے غلط کاموں پر حکم صادر کرے گی صحیح فیصلوں کی توثیق کرے گی انتظامیہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں پر صحیح صحیح عمل درآمد کروائے گی لاپتہ افراد کو حکومتیں گم نہ کر سکیں گئیں اگر کوئی شہری غیر قانونی کام کرے گا اور مجرم ہو گا تو اُسے قانون کے مطابق جیل جانا پڑے گا اور جو مجرم نہیں ہو گا اٰسے منہ زورپولیس یا خفیہ ادارے غائب نہیں کر سکیں گے قانون اور آئین کی حکمرانی قائم ہو گی اختیارات آئینی اور قانونی طور پر تقسیم ہو گے ہم مہذب دنیا میں شمار ہوگے پاکستان ترقی کرے گا لاء اینڈ آڈر درست ہو گا مظلوم کی داد رسی ہو گی دہشت گردی ختم ہو گی اللہ ہمارے ملک کا نگہبان ہو آمین۔