بزم غزل کی طرف سے آن لائن بین الاقوامی نعتیہ مشاعرہ
پٹنہ 25 دسمبر واٹس ایپ گروپ’بزم غزل’ کے زیر اہت
مام گزشتہ رات ایک آن لائن بین الاقوامی نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض نوجوان شعرا جہانگیر نایاب اور عامر نظر نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔مشاعرہ میں،پروفیسر عبد المنان طرزی، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی،ڈاکٹر واحد نظیر، احمد اشفاق،افتخار راغب، ڈاکٹر اسرائیل رضا، ڈاکٹر عبد الحنان سبحانی،مرغوب اثر فاطمی، ایم آر چشتی، ڈاکٹر منصور خوشتر، کامران غنی صبا،جہانگیر نایاب، عامر نظر، منصور قاسمی، اصغر شمیم، نور جمشیدپوری،نیاز نذر فاطمی، احمد علی،کیف احمد کیفی،رہبر گیاوی، نصر بلخی، انعام عازمی اور ایم رضا مفتی نے اپنے نعتیہ کلام پیش کئے۔
صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر منتظمین بزم غزل کو مبارکباد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سارے جہان کے لئے رحمت ہیں۔اسی لئے قرآن کریم نے آپ کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمت اللعالمین بتایا ہے اور پھر ساری انسانیت کے لئے آپ ۖ کو قابل تقلید نمونہ قرار دیا ہے مگر افسوس کہ ہم نے سب سے مکمل اور کامل نمونۂ حیات کی طرف سے صرف نظر کر لی ہے۔ صدر مشاعرہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اس بات پر زور دیا کہ آج کے دن اس بات کا عہد کیا جائے کہ ہم محسن انسانیت ۖ کے نظام حیات کو اپنے سینوں سے لگائیں گے۔شکریہ کے کلمات ادا کرتے ہوئے بزم غزل کے بانی ایم آر چشتی نے کہا کہ آج دشمنان اسلام یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم سبھی مسلمان کس طرح اپنے آقا ۖ کی پیدائش کو خوشیاں منا رہے ہیں۔ بغیر کسی تفریق کے آج ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔انہوں نے کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر صدر مشاعرہ، شعرائے کرام ، ناظمین مشاعرہ اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔مشاعرہ میں پیش کئے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش کیا جاتا ہے:
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی یہ قمر یہ اس کی ضیا ہے کیا، تری جستجو یہ فضول ہے یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی یہ بھی خاک پائے رسول ہے
پروفیسر عبد المنان طرزی
ترے در کی حضوری ہے شہنشائی سے افضل تر نگاہِ شوق کا قرآں ترے روضے کی جالی ہے
ڈاکٹر واحد نظیر ممکن نہیں کہ ٹھہریں حساب و کتاب میں رکھتے ہیں آس شافعِ روزِ جزا پہ ہم
احمد اشفاق لکھوں میں نعت بحر عقیدت میں ڈوب کر صلی علیٰ ہو خامۂ قرطاس کی زباں
افتخار راغب چارہ گرو عبث نہ کرو وقت رائگاں یہ درد وہ ہے جس کا مداوا حضور ہیں
ڈاکٹراسرائیل رضا دل مدینہ، مدینہ ، مدینہ ہوا نعت اپنی رضا جب سنانے چلے
ڈاکٹر عبد الحنان سبحانی نہ ہو مایوس ائے انساں زیارت یوں بھی ہوتی ہے اسی کو دیکھ لے جس نے مدینے کی گلی دیکھی
مرغوب اثر فاطمی ہم تو نہ جانتے تھے کہ اللہ کون ہے وحدت کے داعی، وجہِ صحیفہ ہیں آپ ہی
ایم آر چشتی وہاں ذروں میں بھی ہے زیست کی رعنائیاں چشتی مدینے میں وہ مر جائے جسے جینے کی حسرت ہو ڈاکٹر منصور خوشتر
خدا کو، دین کو، اس کے نبی کو ہم نے پہچانا رسول پاک کا خوشترکرم انساں پہ ہے کیا کیا کامران غنی صبا
ہجر میں دل پریشان ہے یا خدا خواب میں روضۂ مصطفےٰ چاہیے جہانگیر نایاب
خود اپنے آپ ہی کردار کو ہم نے کیا پامال ‘ہماری سیرتوں میں ہے کوئی رنگ ان کی سیرت کا’ عامر نظر
در محبوب کے صدقے کرم اتنا خدا کرنا مدینے کی گلی میں جسم سے سانسیں جدا کرنا منصور قاسمی
منزلیں خود چومتی ہیں ان کے قدموں کے نشاں جن کے ہاتھوں میں نبی کی سنت و قرآن ہے
اصغر شمیم کہیں اور جانے کی حسرت نہیں ہے مدینے کی شام و سحر چاہتاہوں
نور جمشیدپوری روز و شب بہتا ہے یاں فیض کا دریا ہم بھی اشک آنکھوں سے ندامت کا بہانے آئے
نیاز نذر فاطمی ترا اک در ہے فقط نذر کی امید نجات اور کہاں جائیں گنہگار مدینے والے
احمد علی دل چاہتا ہے میرا اجازت اگر ملے محشر میں بھی سنائوں ترانہ رسول کا
کیف احمد کیفی رنج و الم تھے جتنے بھی کافور ہو گئے طیبہ کو دیکھتے ہی مرا دل بہل گیا
رہبر گیاوی خدائے پاک نے ان کا کبھی سایہ نہیں رکھا نہ کوئی ہم صفت ان کا نہ کوئی ان کا ثانی ہے
نصر بلخی یہ جسم و جان لہو ہوتا خوں میں تر ہوتا کٹے جو عشق محمد میں وہ جگر ہوتا
انعام عازمی نبی مختار کل ٹھہرے، حبیب دو جہاں ٹھہرے انہیں اپنی طرح کہتے ہو بولو تم کہاں ٹھہرے
ایم رضا مفتی کاش شہر طیبہ میں میرا دم نکل جاتا موت لے کے آ جاتی زندگی مدینے کی