وطن عزیز پاکستان اس وقت کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی و بے امنی، توانائی کی قلت

وطن عزیز پاکستان اس وقت کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی و بے امنی، توانائی کی قلت، مس مینجمنٹ، اداروں کی زبوں حالی اور اندرونی و بیرونی دہشت گردی جیسی مشکلات کا شکار ہے اورخاکم بدہن ریاستی ڈھانچہ ”کو لیپس” کرتا نظر آ رہا ہے۔میاں صاحب نے جس منشور اور ”مینی فیسٹو”پر الیکشن جیتا ویسا کہیں ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کے پہلے سو دنوں میں سو دھماکے ہو چکے جس نے اور کچھ نہیں تو کم از کم حکومتی عہدیداروں کی اہلیت اور اصلیت کا پول کھول دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیںکہ میاں صاحب کی حکومت زرداری صاحب کی حکومت کا تسلسل ہی نہیں دوسرا جنم بھی ہے۔ صورتحال ماضی سے بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔دونوں کا ہدف اور دونوں کی منزل ایک ہے بلکہ انجام بھی ایک جیسا ہی ہو گا۔ 8 ستمبر کا عوامی اجتماع ملک کو درپیش چیلنجز اور داخلی و خارجی مسائل کے حل میں ممدومعاون ثابت ہو گا۔ وطن عزیز میں دنیا بھر سے دہشت گردی کو امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ ممالک کہ جنہوں نے اس میں دامے درہمے سخنے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا ان میں عرب ریاستیں بالخصوص سعودی عرب سرفہرست ہے۔

سلفی تکفیری فکر کے نتیجے میں اسلام کے جہاد ایسے مقدس شعار کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سے اب دہشت گرد ایکسپورٹ ہونا بھی شروع ہو گئے ہیں۔اس سارے کھیل میں پاکستانی حکومت اور”اداروں”نے امریکی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے نہ صرف مستقبل کے حوالے سے کوتاہ اندیشی کا ثبوت دیا بلکہ ہماری ریاستی پالیسیوں میں کج فہمی کا عنصر بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔بدقسمتی سے ہم دہشت گردوں کو اپنا”سٹریٹیجک ایسٹ” تصور کرنے لگ گئے۔ پاکستان میں جو آج کشت وخون کا بازار گرم ہے یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔

جب تک حکومت اپنی ”ول” کا اظہار نہیں کرتی اور پوری دلجمعی اور قوت کے ساتھ اس کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں نہیں اترتی۔ دہشت گردوں کا قلع قمع ممکن نہیں ہے۔ جب تک تمام ادارے قومی مفاد میں ”اچھے برے طالبان”کی تمیز کیے بغیر ریاست کے آئین کو بالا دست اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بناتے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹتے اس وقت تک اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں۔ قومی سلامتی کے لیے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک پچ پر آنا ہو گا۔ اگر ہم سب مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف متحد ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امن کا خواب ادھورا رہ جائے۔

سعودی کوششوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر سے پچاس ہزار سے زائد دہشت گردوں کو بشار الاسد حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے جو نہ صرف قابل افسوس بلکہ انتہائی قابل مذمت ہے۔بشار الاسد کو فقط اسرائیل دشمنی اور مقبوضہ بیت المقدس کی تحریک آزادی کی ہر طرح کی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔کیونکہ عرب دنیا میں شام ہی وہ واحد ریاست ہے کہ جو اسرائیل کے ناپاک وجود کی بقاء اور مذموم عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام میں عوامی بغاوت، کیمیائی ہتھیاروں کا حکومت کی طرف سے استعمال دروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں۔ وہاں پر دو طاقتیں باہم نبرد آزما ہیں ایک طرف وہ ہیں کہ جو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور اسرائیل کا تحفظ کر رہی ہیں جب کہ دوسری طرف وہ ہیں کہ جو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے متوالوں کی حامی ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا بھر میں القاعدہ کا تعاقب کرنے والا امریکہ شام میں سعودی عرب اور القاعدہ کے ساتھ مل کر عوامی حمایت یافتہ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوجاتا کہ سعودی عرب، امریکہ اور القاعدہ اتحادی ہیں کل کو یہی جنگ شام کے بعد پاکستان لائی جائے گی۔ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو گذشتہ عرصے میں معلوم ہوچکا ہے کہ شامی عوام اور شامی فوج کو زیر کرنا

ان کے بس کی بات نہیں۔ لبنان کی جنگ کی طرح اسرائیل اور اس کے حامیوں کو یہاں پر بھی شکست کا سامنا ہے۔ امریکہ نے یہاں پر وہی الزام دہرایا ہے کہ جس کو جواز بنا کر اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھائی کی تھی۔ انسانی حقوق اور انسانی جانوں کے ضیاع کی بات کرنے والا امریکہ ہیروشیما، ناگا ساکی سمیت متعدد جگہوں پر معصوم انسانوں پر کیمیائی و ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے والی دنیا کی واحد ریاست ہے۔

اگر امریکہ اور اس کے اتحادی شام پر کسی بھی قسم کی جارحیت مسلط کرتے ہیں تو جنگ کی اس آگ کا دائرہ بہرحال شام تک محدود نہیں رہے گا۔ مجلس وحدت مسلمین ہر سال اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے مختلف اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار شہید عارف حسین الحسینی کی برسی کے موقع پر منعقد ہونے والا یہ پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ملک بھر سے ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوں گے۔ انشاء اللہ یہ پروگرام وطن عزیز سے دہشت گردی،فرقہ واریت، پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت، جنوبی ایشیاء سمیت دنیا بھر میں امریکی عزائم کی نابودی اور راتحاد بین المسلمین کے فروغ میںمعاون و مددگار ثابت ہوگا۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے پروگرام کو پریڈ گراؤنڈ میں منعقد کرنے کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے۔پروگرام کے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ شرکاء کے قافلے اتوار کی رات ہی اسلام آباد پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کے چار ہزار رضا کار کہ جس میں خواتین بھی شامل ہوں گی شرکاء کی حفاظت پر مامور ہوں گے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی سکیورٹی اس کے علاوہ ہے۔ انشاء اللہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ پروگرام اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔