بھارت (جیوڈیسک) سن 2022 تک بھارت کے دیہی علاقوں کے اسی ملین گھروں تک گیس فراہم کرنے کا منصوبہ گو کہ کئی عورتوں کی زندگیوں میں تبدیلی کا سبب بنا ہے تاہم اس اسکیم پر عمل درآمد میں بدعنوانی اور رشوت خوری کے بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
رینا دیوی کی زندگی اس وقت بدل گئی، جب اس کے گھر میں گیس کا کنکشن لگا۔ اب کھانا پکانے کے لیے اسے لکڑی یا کوئلے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اسے خطرناک دھوئیں میں سانس لینا پڑتا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے کئی بلین ڈالر مالیت کے اس منصوبے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لاکھوں گھروں تک گیس کی ترسیل ممکن بنائی جائے۔ اور یوں نہ صرف رینا دیوی جیسی دیہی علاقوں کی عورتوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جائے بلکہ فضائی آلودگی میں بھی کمی کی جائے۔ مودی کے لیے یہ منصوبہ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا تاہم منصوبے پر عمل درآمد میں بدعنوانی کی کئی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔
رینا دیوی کا دعوی ہے کہ اسے گیس کے چولہے کی کِٹ یوں تو بلامعاوضہ ملنا چاہیے تھی تاہم اس نے اس کے لیے تین ہزار روپے ادا کیے۔ یہ رقم دیوی کے نثار پورہ نامی گاں کے اکثریتی لوگوں کی ایک ماہ کی اوسط انفرادی تنخواہ کے برابر ہے۔ بھارت کی سب سے غریب ریاست بہار کی رہائشی رینا دیوی نے بتایا، میں اہلکاروں سے التجا کرتی رہی کہ مجھے یہ کِٹ بلامعاوضہ فراہم کی جائے لیکن انہوں نے میرے سامنے دو ہی راستے رکھے، یا تو میں اس کِٹ کے لیے مطلوبہ رقم ادا کروں یا پھر اسے بھول جاں۔
اس اسکیم کے ناقدین کہتے ہیں کہ پروگرام میں رشوت خوری اور کرپشن کے کئی کیس سامنے آئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو افراد اس اسکیم سے مستفید ہوئے ہیں، وہ گیس کے سلنڈر دوبارہ بھروانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نتیجتا کئی لوگ جنہیں یہ گیس کِٹس فراہم کی گئیں، وہ دوبارہ روایتی طریقہ ہائے کار کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس وزارت عظمی کی دوسری مدت کے خواہاں مودی اس اسکیم کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔ ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ اسی پروگرام کے نتیجے میں اب ملک بھر میں مزید کئی ملین گھروں میں کھانا پکانے اور دیگر ضروریات کے لیے گیس کی سہولت میسر ہے۔
نریندر مودی نے اجالا یوجنا نامی اسکیم مئی سن 2016 میں شروع کی تھی۔ اس کا مقصد سن 2022 تک بھارت کے دیہی علاقوں کے اسی ملین گھروں تک گیس کی سپلائی ممکن بنانا ہے۔ بھارت میں گھروں کے اندر کھانا پکانے اور دیگر مقاصد کے لیے لکڑی اور دوسری طرح کے ایندھن کے استعمال سے اٹھنے والا دھواں عالمی ادارہ صحت کے مطابق انتہائی مظر صحت ہوتا ہے۔ ایسا دھواں عورتوں میں سرطان اور دل کے امراض کا سبب بنتا ہے۔
ماحول دوست توانائی کے حصول کے لیے شروع کردہ اس اسکیم کے تحت ابتدا میں لوگوں کو سولہ سو روپے کا قرض فراہم کیا جاتا ہے، جس سے در اصل گیس کا چولہا، سلنڈر اور پائپ وغیرہ لیا جاتا ہے۔ قرض کی رقم کم قیمت پر دستیاب گیس کے سلنڈر دوبارہ بھرا کر ادا کرنا ہوتی ہے۔ نثار پورہ میں کئی اور ایسی مثالیں موجود ہیں، جن میں مقامی لوگوں سے رشوت طلب کی گئی یا پھر گیس کِٹس کی فراہمی کے لیے ان سے رقوم لی گئیں۔
بھارتی حکومت نے شروع میں اس اسکیم کے لیے اسی بلین روپے مختص کیے تھے۔ اب اس رقم میں اضافہ کر کے اسے 120 بلین روپے کر دیا گیا ہے۔ صرف بہار ہی میں آٹھ ملین گھرانے گیس کٹس لگوا چکے ہیں لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چار سب سے بڑی ریاستوں میں اب بھی چھتیس فیصد لوگ کھانا پکانے کے لیے روایتی طریقہ ہائے کار اور روایتی ایندھن استعمال کرتے ہیں۔
گو کہ اس اسکیم سے منسلک کئی اسکینڈل بھی سامنے آئے ہیں تاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں پچھلے دو برسوں کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی 37 ملین عورتیں اس منصوبے سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔