مرد عورتوں کے حاکم ہیں اگر اس فقرے کو بغور دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ مرد حکمران ہے اور عورت غلام ہے مگر اس کی تفسیر کا مطالعہ کیا جائے تو واضع ہو جاتا ہے یعنی اصل حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ مرد حکمران ہے یا پروٹکٹر۔۔۔۔۔ لفظی مطلب سے بہتر ہے گہرائی کا مطائعہ کیونکہ گہرائی کے مطائعے سے ثابت ہوتا ہے کہ کون کیا ہے۔۔۔۔۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔ اس کا مقام کیا ہے۔۔۔۔ اس کی اہمیت کیا ہے۔۔۔۔کون کس کے لئے اہم ہے۔۔۔۔۔۔کون کس کا حاکم اور کون کس کا غلام ہے۔۔۔۔ہر چیز کے دو معنی ہوتے ہیں جس طوح حاکم اور نگہبان۔۔۔اصل میں مرد عورت کا نگہبان اور پہرے دار ہے اس کی عزت و آبرو کا محافظ ہے اللہ تعالٰی نے عورت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف اوقات میں خیال رکھنے والے میسر کیے ہیں جو عورت کی عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں جس طرح پہلے باپ پھر بھائی۔۔ خاوند کے بعد بیٹا۔۔۔کیا خاص ترتیب ہے۔
جب کسی گھر میں کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا باپ اس کا اس کا پروٹیکٹیرہوتا ہے یعنی بیٹی کے نا ز نخرے اور حالات کا خیال رکھتاہے تعلیم و تربیت لباس وطعام اور مختلف قسم کی ضروریات زندگی ہیں باپ کے ساتھ ساتھ بھائی بھی عورت کے حقوق کی آدائیگی میں باپ کے کندھے سے کندھا جوڑتا ہے باپ بیٹا مل کر اس لڑکی کی زندگی کو پر سکون بنانے کیلئے کوشاں کرتے ہیں اور اس لڑکی کے معیار اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کیلئے اچھے لڑکے کا بندوبست کرتے ہے جو ان سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھے اور ماحولیاتی عناصر سے محفوظ رکھے اور اس کے حقوق کو پامال ہونے سے گریز کرے۔۔۔
میاں بیوی ایک دوسرے کا عکس ہوتے ہے دونوں کو زندگی گزرنے کیلئے توازن کو بر قرار رکھنا ہوتا ہے جس کی بدولت زندگی کی گاڑی توازن کی حالت میں گامزن رہتی ہے کسی بھی چیز کو چلانے کیلئے توازن کا ہونا ضروری ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی میاں بیوی میںگھریلو تنازعے اس حد تک پہنچ گئے کہ نوبت طلاق تک آگئی میاں بیوی طلاق کروانے کیلئے کسی عالم یا مولوی کی تلاش میں روانہ ہوئے چند دنوں کی مسافت کے بعد ایک وقت کے مولوی کے پاس پہنچے مولوی صاحب نے بڑے مہذب انداز میں خوش آمدید کیا اور پوچھا جی کیا حکم ہے میاں بیوی نے جواب دیا کہ ہم آپس میں علحیدگی کروانی ہے یعنی طلاق لینی ہے مولو ی صاحب نے کہا چند لمحے انتظار فرمائیں آپ کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔
پردے سے آواز دے کر مولوی صاحب بولے بیگم مہمان آئے ہے کچھ فروٹس پیش کرو چند لمحوں بعدبیگم صاحبہ نے پردے سے ایک تربوز مولوی صاحب کی طرف بھیجا مولوی صاحب نے تر بوز کو ہاتھ میں لیا اور بغور دیکھنے کے بعد واپس کردیا اور بولے بیگم صاحبہ مہمان بہت خاص ہے کوئی اچھا سا تربوز بھجیں بیگم صاحبہ نے کچھ دیر بعد ایک تربوز بھیجا مولوی صاحب نے پھر وہی عمل دہرایا جب مولوی صاحب نے یہ عمل تین چار دفعہ دہرایا تو طلاق لینے والے تنگ آ کے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے مولوی صاحب ہم طلاق کے سلسلے میں آئے تھے اور آپ تو تربوز کی گیم کھیل رہے ہے مولوی صاحب نے بڑے صبر و استقلال سے کا م لیتے ہوئے فرمایا ارے برخوردار یہ سب کھیل تو آپ لوگوں کیلئے تھا ہمارے گھر میں تو صرف ایک ہی تربوز ہے میری بیوی کا صبر دیکھو کہ ایک ہی تربوز کو کئی دفعہ واپس کیا لیکن اس عورت نے میری عزت کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے بغیر شک و ثبات کے تربوز کو بار بار بھجتی رہی اسی وجہ سے ہمارا رشتہ آج تک برقرار ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کا عکس ہے اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو کے نگہبان ہیں ۔۔۔۔ دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی ۔۔۔لوگوں نے میرے گھر سے راستے بنالئے
ضروریات زندگی تو خدا سب کی پوری کرتا ہے مگر خواہشات تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے اس لیے خواہشات زندگی کو دبا دینا ہی اصل عقل مندی ہے انسان کا نفس ایک زرد کتا ہے جو حوس کا شکار ہے اور رورانہ ہڈی کی تلاش میں رہتاہے انسان زندگی کوآسائشوں میں گزارنا چاہتا ہے گھریلو فسادات کی بنیاد خوہشات پر ہوتی ہے کچھ لوگ کم کمائی میں بھی گزارہ کرلیتے ہے جبکہ اس کے بر عکس زیادہ تر لوگ زیادہ کمائی میں بھی بہت مشکل سے گزارہ کرتے ہیں اس کا اصل دارومدار بیوی پر ہوتا ہے بیوی گھر کے اخراجات کو کنٹرول کرنے میں با اختیار ہوتی ہے مرد جب غریب ہوتا ہے تب عورت کی وفاداری کا پتہ چلتا ہے اگر عورت وفادار اور نسلی ہوگی تو مرد کے شانہ بشانہ ہوگی بعض دفعہ رشتوں کے تقدس کو برقرار کھنے کیلئے خاموشی بہترین عمل ہے جس کی بدولت رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہے۔
محبت کے رشتو ں میں انا نہیں ہوتی جہاں پر اکڑ ہوتی ہے وہاں رشتے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے جھکے ہوئے درخت کو ہی پھل لگتے ہے کبھی پہاڑوں سے گر کے آتی نہیں خراش او ر کبھی نرم لفظوں سے بھی لگ جاتی ہے چوٹیں مگر آج کل کی صورت حال کی وجہ سے اور ماحولیاتی پسماندگی کی باعث عورت نے مرد کی اہمیت کو کھو دیا ہے بعض اوقات مرد تو اپنی عزت کا خود جنازہ اٹھاتے ہیں اگر قصور کی بات کی جائے تو مرد عورت کا پروٹیکٹر ہے مگر وہ اپنی ڈیوٹی سے غافل ہوااسی دوران کوئی اور پروٹیکٹر نازل ہوگیا تو قصور کس کا ہے عورت کی سمجھ بھی ایک حد تک ہوتی ہے بعد میں تعریف بن جاتی ہے۔
مثال کے طور پر عورت کے بہت سی ضروریات ہیں جو وہ اپنے خاوند کو بتا سکتی ہے مگر جب خاوند ہی اس کا خیال نہیں رکھے گا تو عورت کی توجہ خود بخود دوسری جانب مبذول ہوگی جو ایک خطرے کی علامت ہے یہ کا م صرف اور صرف ماں یا خاوند کا ہے آگر خریداری کے سلسلے کو دیکھا جائے تو عورت بازار سے ضروری اشیاء خرید رہی ہوتی ہے ایک دفعہ میرے ایک دوست سے بازار میں ملاقات ہوئی احوال دریافت کر نے کے بعد پوچھا یہاں کیوں کھڑے ہوتو جواب دیا کہ امی جان اپنی ضروری خریداری کرنے گئی ہے میرا جانا مناسب نہیں خدا کے بندے ذرا سوچ تیری ماں بہن بیوی بیٹی اپنا ضروری سامان دوسرے مر دوں کے سامنے مانگتی ہیں تو اس وقت تیری شرم گھاس کھانے جاتی ہے ارے بے غیرت کچھ تو عقل کر اور عورت کو اس کی حدود میں رہنے دے اپنی غیرت کو مرنے سے بچا اور اپنے گھروں کی حفاظت کر دوسرں کے گھروں میں جھنکنے سے اجتناب کریں اور گھریلو جھگڑوں کو گھروں تک محدود رکھیں ۔۔۔۔۔اگر مرد اور عورت ان حالات وواقعات کی حقیقت کو جان لے اور ایک دوسرے کے حالات کے مد نظر فیصلے کریں اور واقعات کی سنگینی کو طول نہ دیں تو لوگوں سے فسادات ختم ہوجائیں انسان اپنے اندر سے اکڑکو ختم کردے اور محبت واخوت کے ساتھ حق تلفی نہ کرے تو معاشرے میں ہر طرف سکون برپا ہوجائے مگر بے سود۔۔۔