تحریر: وقارانسا گھر ہو خاندان علاقہ شہر یا ملک اس کے بہتر انتظام وانصرام کے لئے سربراہ کی حیثیت کلیدی ہے- دیار غیر مقیم کمیونٹی کے لئے آپ کے ملک کے سفیر کا کردار بالکل ایک سربراہ کا ہوتا ہے اور سفارتخانہ وہ گھر جہاں آپ اپنے متعلقہ کاموں کے لئے بلا جھجھک جا سکتے ہیں-ایسے میں سفیر صاحب اگر بہترین اخلاق اور اپنے کام سے حقیقتا محبت رکھنے والے ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہے – ایسی ہی شخصیت کے حامل سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب سے شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی خواتین کو ملاقات شرف حاصل ہوا۔
وقت مقررہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے سب خواتین ادارے کی بانی شاہ بانو میر صاحبہ کے ساتھ سفارتخانے پہنچیں ان میں ادارے کی سینئر خواتین وقارانسا نگہت سہیل شاذ ملک شازیہ شاہ اور ادارے کی صدر مبشرہ نعیم تھیں۔ سفیر صاحب نے آفس کے دروازے پر آکر خواتین کو خوش آمدید کہا-اور بہت اچھی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں بیٹھنے کو کہا ان کی شخصیت کا یہ پہلا انداز ہی نہایت متاثر کن تھا جو ہر خاتون کے چہرے سے عیاں تھا ۔
شاہ بانو میر صاحبہ نے اکیڈمی کی خواتین کا تعارف کروایا اس کے بعد سفیر صاحب نیخوشدلی سے ہر خاتون کو موقع دیا کہ وہ اپنے بارے میں خود بھی بتائیں-شاہ بانو میر صاحبہ نے بتایا کہ وطن کے لئے کچھ کرنے کی لگن نے انہیں ایک یہ ادارہ بنانے کا سوچ دی تاکہ پڑھی لکھی خواتین اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ملک اور مذھب کے لئے کچھ کر سکیں-سفیر پاکستان یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ شاہ بانو میر صاحبہ کے کھر قرآن مجید کے ترجمہ تفسیر کی کلاس بھی ہوتی ہے۔
Women’s Work
انہیں خواتین کے کام کی ایک فائل بھی دی گئی جس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور کھلے دل سے خواتین کے کام کو سراہتے ہوئے کہا آپ لوگوں کا کام بے لوث ہے – آپ سب کے اس جذبے کی میں قدر کرتا ہوں-کہ گھریلو کاموں سے آپ اتنا وقت نکالتی ہیں- انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلا شبہ اتنی اچھی ٹیم سے مل کر بہت خوش ہوئے ہیں انہوں نے میگزین کے نام کو دلچسپی سے دیکھا اور نام دہرایا۔
وقارانسا نے بتایا کہ یہ نام انہوں نے بڑا سوچ کر منتخب کیا کیونکہ یہ میگزین چھپا موتی ہے جس میں تمام کام کرنے والی خواتین کے قلم کے موتی جمع ہیں-انہوں نے بتایا کہ وہ بطور گزیٹیڈ افسر محکمہ ایجوکیشن میں تعینات رہیں لکھنے کا شوق طالبعلمی سے تھا جس کو پورا کرنے کی خواہش نے شاہ بانومیر صاحبہ سے جوڑ دیا-اور پہلا قدم ہم دونوں نے اٹھایا آج الحمدللہ اکیڈمی میں پڑھی لکھی خواتین نگینوں کی طرح جگمگا رہی ہیں شاذملک نے اپنی دونوں کتابیں پیش کیں نگہت سہیل اور شازیہ شاہ نے بھی پاکستان میں اپنے محکمہ ایجوکیشن سے وابستگی کا ذکر کیا- سب نے اپنے خیالات سے آگاہ کیا نئی نسل کی نمائندہ مبشرہ نعیم نے نوجوان نسل کے لئے کام کی کچھ تجاویز دیں جن کو سفیر صاحب نے بہت سراہا۔
سفیر صاحب نے اپنی خوبصورت گفتگو میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ کئی دوسرے امور پر بات کی جس میں نوجوان نسل کو مذھبی آگاہی کے ساتھ ملک کی تاریخ کی آگاہی پر زور دیا اور ایسے اقدام کرنے کا خیال ظاہر کیا جن سے یہ مقاصد حاصل ہوں-یہ سب گفتگو کرتے ہوئے اپنے وطن سے محبت ان کے چہرے سے عیاں تھی-انہوں قائد اعظم جیسے عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربلندی کی ھمیشہ کوشش کرنی ہوگی جس میں ھماری نوجوان نسل اہم کردار ادا کرسکتی ہے دیار غیر میں رہتے ہوئے ھمیں انہیں ان پروگرام کے ذریعے اپنے وطن اور اس کی محبت سے جوڑنا ہوگا اسلام امن اور آشتی کا مظہر ہے اسلام جیسے مذھب کی جو صورت مسخ کر کے دنیا کے سامنے لائی جارہی ہے ھمیں اسلام کی صحیح صورت دکھانی ہوگی اس کے لئے نوجوان نسل کا مذھب سے جڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Cooperation
سفیر پاکستان نے درمکنون کے تیسرے شماریکے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا انہوں دوران گفتگو ہونے والے اہم پوائنٹ میڈم عائشہ سے نوٹ کروائے- بدلتے موسم کیہلکے خنک ماحول میں قہوے کی لذت نے بے حد سرور دیا – سفیر صاحب نے اپنے مصروف وقت میں سے تسلی بخش وقت اکیڈمی کی خواتین کو دیا پورے اطمینان اور سکون سے سب کو سنا اور اپنے بہترین خیالات سے سب کو مستفید کیا-سب خواتین نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت انہیں دیا اور ان سے اجازت چاہی سفیر صاحب نے جس طرح سب حواتین کو خوش آمدید کہا تھا اسی طرح واپسی پر بھی آفس سے باہر آکر خدا حافظ کہا اور یوں سب اطمینان دل میں لئے وہاں سے رخصت ہوئے۔