تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ مشعر عالمی امن (امن کا عالمی انڈکس) قوم اور خطے میں امن کے تعلق اندازہ کرنے کی کوشش ہے اور ایک مستند دستاویز ہے۔جس میں ”اپسلا تنازعات ڈیٹا پروگرام، اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ، اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزیں، سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ادارہ برائے اقتصادیات و امن ودیگراداروں کی رپورٹ کے پیش نظر شامل ممالک کو درجہ بند ی دی جاتی ہے ،2011 سے لے لیکر اب تک اس میں 163 ممالک کی امن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی جس کے آ خری ممالک میں نو مسلمانوں کے ہیں۔ان میں شام، عراق، یمن، افغانستان، لیبیااورپاکستان بھی شامل ہیں۔یہ مقام فکر ہے۔ اگر سیاست سے باہرنکل کرغورکیاجائے تووجوہات کو جانچنا مشکل نہیں۔ ہمیں اندورنی دہشتگردی کوسختی سے کچلنا چاہیے بعدازاں ایک پر امن ملک کی حیثیت سے تمام مسائل کومکالمہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اقتصادی ترقی کوسامنے رکھ کر دنیا سے قدم ملا کر چلناچاہیے۔ایک مضبوط اورتواناپاکستان ہمارے اپنے حق میں ہے مگرجس ذہنیت کے ساتھ ہمیں تشدد پسندی کی طرف لے جایا جا رہا ہے اس کے نتائج ہولناک ہو سکتے ہیں۔
کئی صدیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ جنگ کا مطلب کیا ہے ؟ آج کل کے سیاست دانوں کی تو بات ہی الگ ہے کیوں ان کے قریب کرسی ہی سب کچھ ہے لیکن ماہرین ، دانشوروں اور بزرگ سیاست کے نزد ”جنگ و جدل ،دنگہ و فساد،رگڑا جھگڑا ،قتال و جدال ،لڑائی بھڑائی“کچھ یوں ہے کہ انسان کی زندگی کے ہرموڑ پر ایک نئی جنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلے جاری وساری رہااور رہے گا۔ہرامیر، غریب ، مسلم ،غیرمسلم کو اپنے حقوق کی خود جنگ لڑانا پڑتی ہے ۔دنیا کی ہر جنگ میں دوچیزوں کا استعمال ہوتاہے ”ایک زبان کا یعنی مذاکرات ، دوسر ا طاقت اسلحہ “ دونوں الفاظ کامطلب طاقت ہے ۔دونوں فریقین میں سے کسی بھی ایک فریق کی چھوٹی سے غلطی بڑے نقصان کاباعث بن سکتی ہے۔
جنگ کی شروعات کہاں سے ہوسکتی ہے اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ”تناز عہ، جھگڑا، عنااد، معرکہ ،ٹنٹا،کھٹاپٹی،معمولی تکرار، لڑائی، دنگا، فساد، بحث، حجت، تکرار، اختلاف،جنجال، کھڑاگ، بکھیڑا،جھگڑا بکھیڑا،جھگڑا جھگڑی،آپس کا جھگڑا،جھگڑا رگڑا،قصہ قضیہ، بحث و تکرار، اختلاف، جھگڑالو پن،فساد،خانگی جھگڑا،ملکی معاملات پر آپس میں اختلاف رائے،گھریلو یا نجی قضیہ، نجی، خاندانی فساد، آپس کا جھگڑا، آپس کی تکرار،نجی امور، کسی ایک ذات سے تعلق رکھنے والے معاملات،امور ملکی، سلطنت کے کام، شاہی کاروبار، امور سیاست،دنیا کے معاملات، دنیوی مسائل، کاروبارِ دنیا، زندگی کے معاملات، معمولات زندگی،وظائف روزانہ، گھر کا طرز زندگی، نظام الاوقات، فرائض خانہ،روزمرہ کی باتیں، روزانہ کے امور، زندگی کے عام کام،رعایت حقوق،حقوق کا لحاظ، حقوق کی دیکھ بھال،حق حقوق، انعام، نیگ، واجبات (جسے دوسروں سے لینے کا استحقاق ہو)،حقوق انسانی،وہ حقوق جو ایک انسان کے دوسرے انسان پر ہوتے ہیں، وہ حقوق جو انسان کو جائز یا قانونی طور پر حاصل ہیں،حقوق زوجیت،(قانون) ازدواجی حقوق؛ وہ حقوق جو بیوی ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔
شہری حقوق، بنیادی حقوق، جمہوری حقوق، وہ آزادی جو ملک کے باشندوں کو ازروئے قانون حاصل ہو،امتیازی حقوق،وہ حقوق جو کسی خاص شخص یا جماعت کو حاصل ہوں (خصوصاً حکومت کی جانب سے)جیسے: اقلیت کے امتیازی حقوق،اضافی حقوق، (شہریت) وہ حقوق جو کسی شخص کو اس صورت میں حاصل ہوتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں کسی ناجائز فعل کا ارتکاب ہوتا ہے،مقطع حقوق،جس سے واسطہ یا سروکار نہ رکھا جائے، قطع تعلق کے لائق،نقشہ حقوق و ذمے داری،وہ کاغذ وغیرہ جس میں کسی کے فرائض اور استحقاق کی تفصیل لکھی ہو،مکتب الحقوق،ایسی درس گاہ جہاں قانون کی تعلیم دی جائے، مکتب حقوق،مکتب حقوق،درس گاہ، پڑھنے لکھنے کی جگہ، تعلیم گاہ جس میں بچوں کو (ابتدائی) تعلیم دی جائے، سکول نیز کالج وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔کسی بھی وقت ان تمام معاملات میں انسان کو جنگ کا خطر ہ لاحق ہوسکتاہے ،اور کسی بھی مسلم وغیرمسلم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اپنے تمام معاملات تمام زندگی پر روشنی ڈالیںاوراپنی حسن و فتح اور کامیابیوں اور ناکامیوں کی وجوہات پر کھل کر بحث و مباحثہ کریں جس طرح دوسرے ممالک کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کرتے ہیں اس حوالے سے تاریخ گواہ ہے کہ مغلوں کی تاریخ میں امیر تیمور، بابر، ہمایوں اور جہانگیر نے اپنے اپنے ادوار کے چیدہ چیدہ واقعات خود قلمبند کئے جو آج تاریخ کے طلباءکے لئے ایک بیش قیمت حوالہ گردانے جاتے ہیں۔کیونکہ ملک وقوم کی خدمت کیلئے سرکاری نوکری ضروری نہیں ، پاکستان کا ہر شہری اپنے وطن عزیز کا محافظ اور سپاہی ہے۔