تحریر: پروفیسر رفعت مظہر ارضِ وطن ہمیشہ زلزلوں کی زد میں ،یہ زلزلے کبھی دھرنوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں تو کبھی دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کی صورت میں۔ آجکل بلدیاتی انتخابات نے ”تھرتھلی” مچارکھی ہے اور امیدواروں کی ”ڈورٹوڈور” مہم نے جینا دوبھر کردیا جس کاہم نے چاروناچار حل یہ نکالاکہ گھرکے بیرونی گیٹ پرتالا لگاکر اندربیٹھ رہے جس سے اب کچھ سکون ہے۔ یہ زلزلے تو ”کُرسی”کی ہوس میں آتے ہیںاور آتے ہی رہیں گے لیکن کبھی کبھی رَبّ ِلَم یَزل اپنی مخلوق کی اِس یاد دہانی کے لیے کہ ہمیں پلٹ کراُسی کی طرف جاناہے ،زمین کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتاہے۔ یہ حضرتِ انسان بھی عجب شے ہے کہ اِس پرربّ ِ کائینات کی اِس کھلی وارننگ کابس ایک آدھ دِن ہی اثرہوتا ہے اوراُس کے بعد ”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جوپہلے تھی سو اب بھی ہے” ۔
پِیر26 اکتوبرکو ایسی ہی ایک” وارننگ” کاسامنا ہوا۔ ہم کھاناکھا رہے تھے کہ اچانک زمین جھولا جھلانے لگی اورہم کلمہ طیبہ کاورد کرتے ہوئے باہرکی طرف بھاگے (حضرتِ انسان کو صرف مصیبت میںہی یادِ خُدا آتی ہے)۔ باہرنکلے توعجب منظرتھا، سارا محلہ عالمِ خوف میںسڑکوںپر اِس حالت میںکہ کسی کے سَرپہ دوپٹہ نہیںتو کسی کے پاؤںمیں جوتاالبتہ دعائیں زوروشور سے مانگی جارہی تھیں۔ تھوڑی دیرتک یہی کیفیت رہی اورپھر زمین کوسکون آگیالیکن کوئی اپنے گھرکے اندر جانے کوکوئی تیارنہ تھا۔ فضاء میںبس خوف ہی کی حکمرانی تھی اوریوں محسوس ہوتاتھا کہ جیسے قیامت بس آنے کو ہے۔ میںنے کوہاٹ میںمقیم اپنی ڈاکٹر بیٹی کی خیریت معلوم کرنے کے لیے موبائل فون سے کال کرناچاہی تومعلوم ہوا کہ زلزلے کے شدید جھٹکوںنے سارامواصلاتی نظام درہم برہم کردیا ہے۔
گھر میںداخل ہوکر ٹی وی آن کرناچاہا تو بجلی ندارد ۔تب میںنے عالمِ کرب میںسوچاکی زمین پراکڑ کرچلنے والاانسان کتنابے بَس ہے۔ لگ بھگ 20 منٹ اسی کَرب میںگزارے کہ بیٹی کی skype پرکال آگئی ، وہ بھی ہماری خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین تھی۔ اللہ کالاکھ لاکھ شکرادا کیاکہ بیٹی کاگھرانہ محفوظ تھا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی تونیوز چینلز پرجا بجا تباہی وبربادی کے ہولناک مناظر۔ ارضی طبیعات کے ماہرین کے مطابق 8.1 شدت سے آنے والایہ زلزلہ مزیدہولناک زلزلے کاپیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے اِس لیے عوام کومخدوش عمارتوںسے دورہی رہناچاہیے۔
Earthquakes Injured People
سوموار کو پاکستان میں آنے والے اِس ہولناک زلزلے کی شدت 8 اکتوبر 2005ء کوآنے والے اُس زلزلے سے زیادہ تھی جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 87 ہزار افرادلقمۂ اجل بنے لیکن غیرسرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداداِس سے کہیںزیادہ تھی ۔اب بھی سرکاری ذرائع لگ بھگ 300 افرادکی ہلاکتوںکی اطلاع دے رہے ہیں، خُداکرے کہ ایساہی ہولیکن خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان جہاںسب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے ،وہاںتو پہاڑی علاقوںمیں دوردور بکھرے ہوئے گھرہوتے ہیںاوربعض جگہیںایسی بھی ہیںجہاں چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوںکے سوا کوئی زمینی راستہ بھی نہیںاِس لیے دوردراز جگہوںپر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال ہلاکتوںکی درست تعدادکااندازہ لگانامشکل ہے البتہ یہ ضرورکہا جاسکتا ہے کہ 2005ء کے زلزلے سے کہیںکم تباہی ہوئی جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ 2005ء کے زلزلے کی گہرائی زمین کے اندر 10 کلومیٹر تھی جب کہ پِیرکو آنے والے زلزلے کی گہرائی 193 کلومیٹر۔
زلزلے کے بعداین ڈی ایم اے اورپی ڈی ایم اے متحرک ہوئیں ،ہمارے وزیرِاعظم برطانیہ کادورہ مختصرکرکے فوری طورپر پاکستان پہنچ گئے ،سپہ سالارنے فوج کومتحرک کردیا۔ سوال مگریہ ہے کہ ہم زلزلوںاور سیلابوں جیسی قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے کوئی مؤثر نظام تشکیل کیوںنہیں دیتے؟۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی NDMA) )تو اپنے تئیں کوشش کرہی رہی ہوگی لیکن بااثر بلڈرزکے سامنے بے بَس۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اسلام آباد دُنیاکے اُن 7 شہروںمیں شامل ہے جہاںزلزلوںکے شدیدترین خطرات ہیں۔ یہ شہرزلزلوں سے محفوظ تعمیرات کی صورت میںہی اپناوجود برقرار رکھ سکتے ہیںلیکن یہاںیہ عالم کہ کوئی بااثر بلڈرز کاہاتھ پکڑنے والانہیں۔ 2005ء میںآنے والے تقریباََ اسی شدت کے زلزلے نے مارگلہ ٹاورکو زمیں بوس کردیا اورغیر ملکیوںس میت 70 افراد لقمۂ اجل بنے۔
Islamabad
ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ حکام مارگلہ ٹاور سے سبق سیکھتے اور سی ڈی اے حکام نئے تعمیراتی ضابطوں پر سختی سے عمل کرواتے لیکن اسلام آباد میں تواب بھی دھڑادھڑ ایسی کثیرالمنزلہ عمارات تعمیر کی جارہی ہیں جو زلزلوں کے جھٹکے برداشت نہیں کر سکتیں۔ ایک سرکاری سروے کے مطابق پیر کو آنے والے زلزلے سے اسلام آباد کی کم ازکم چار کثیرالمنزلہ عمارات کوشدید نقصان پہنچاہے ۔جب سی ڈی اے کے ترجمان سے اِس سلسلے میںسوال کیاگیا تواُس کا جواب تھا ”جوکوئی بھی غیرمحفوظ اورغیر قانونی تعمیر کامرتکب پایاگیا ،اُس کے خلاف اُس کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ماضی میںجو کچھ ہوناتھا ،ہوگیا ،آئندہ تحفظ کے ضابطوںپر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا”۔ اپنی جیبیںبھاری کرنے والے سی ڈی اے حکام سے سوال ہے کہ کیا پہلے وہ سوئے ہوئے تھے اورکیا (خُدانخواستہ ) آئندہ زلزلے کی صورت میں ہونے والے کسی بھی سانحے کا مقدمہ سی ڈی اے حکام کے خلاف درج کروایاجائے؟۔
ہماری بدقسمتی تویہ ہے کہ ہم نے نسلِ آدم کوبھی مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کررکھا ہے ،ایک وی وی آئی پیز ہیں جنہیںسارے خون معاف، دوسرے وی آئی پیز جنہیںبیوروکریٹس کی صورت میںجانا اورپہچانا جاتاہے اورملک انہی کے دَم قدم سے ”شادوآباد” ۔اِن پرہاتھ ڈالناشیر کے مُنہ میںہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے اورتیسری کیٹیگری اُن حشرات الارض پرمشتمل کہ جن کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ یہ ہرروز مرتے ہیںاورمرتے ہی رہیںگے کہ ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات”۔ البتہ اِن کی اشک شوئی بھی ضروری کہ کل کلاںانہی کے ووٹوںکی بدولت مسندِاقتدار تک پہنچناہے۔ آجکل وی وی آئی پی حضرات زلزلہ متاثرین کی تیمارداری کے لیے دھڑادھڑ ہسپتالوںکارُخ کررہے ہیںجس سے ہسپتالوںکا سارانظام درہم برہم ۔اِن وی وی آئی پی حضرات کی جانیںچونکہ بہت قیمتی ہیںاِس لیے ساری انتظامیہ اُن کی حفاظت پرمامور ہوجاتی ہے اورہسپتالوں کی راہداریاں کمانڈوزسے بھرجاتی ہیں۔ ہسپتالوںکا عملہ بھی اِن کے استقبال کے لیے سَرپَٹ ہوجاتاہے اِس لیے ہم تودست بستہ یہی عرض کریںگے کہ خُدارا اِن حشرات الارض کو اُن کے حال پرچھوڑ دیجئے کہ اسی میںاُن کا بھلاہے۔